ـ33ویں اولمپکس کا میلہ آج پیرس میںسجے گا 32کھیلوں کے329ایونٹس میںساڑھے10ہزار ایتھلیٹس شرکت کریں گے

346

اولمپکس کا آغاز1896 میں یونان سے ہوا:
یونان کے درالحکومت ایتھنس میں پہلے اولمپک کھیل1896 میں6 سے15 اپریل تک ہوئے تھے۔ ان کھیلوں میں14 ملکوں کے241 مرد کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ پہلے ایڈیشن میں 9 کھیلوں میں کل 43 مقابلے ہوئے۔ ان کھیلوں میں سب سے چھوٹی عمر میں طلائی تمغہ ہنگری کے الفرڈ ہاجوز نے حاصل کیا۔ انہوں نے تیراکی میں یہ تمغہ جیتا اور جس دن انہوں نے یہ تمغہ جیتا تھا اس دن انکی عمر18 سال اور70 دن تھی۔ شوٹنگ میں یونان کے جورجیز ارفنڈیزنے سب سے بڑی عمر میں تمغہ حاصل کیا۔ جس دن انہوں نے یہ تمغہ جیتا تھا اس دن انکی عمر37 سال تھی۔

یونان کے کاروباری جاڑجیس اوی روف نے جو مصر میں رہتے تھے ان کھیلوں کے کرانے کیلئے920000ڈااچما دیئے تھے جو اس وقت36 ہزار 500 پائونڈ بنتے تھے۔ انکی اس رقم سے پانا تھینیم اسٹیڈیم کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ اسی اسٹیڈیم میں قدیم اولمپک کھیل ہوئے تھے۔ ان کھیلوں میں ایٹھلیٹکس، سائیکلنگ، جمنا سٹکس، تلوار بازی، شوٹنگ، تیراکی، ٹینس ، ویٹ لفٹنگ اور کشتی کے مقابلے ہوئے تھے۔ ان کھیلوں کے مقابلے 7 اسٹیڈیمز میں ہوئے۔ جس میں سے4 اسٹیڈیمز2004 میںہوئے اولمپک کھیلوں میں استعمال ہوئے تھے۔

جن 14 ملکوں کے کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں شرکت کی تھی ان میں سے 10 ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ سب سے زیادہ تمغے امریکا نے حاصل کئے۔ اس نے کل19 تمغوں پر قبضہ جمایا جس میں 11 طلائی، 7 نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل تھا۔میزبان یونان نے تمغے تو امریکا سے زیادہ حاصل کئے مگر اسکے طلاٗی تمغے امریکا سے کم تھے اس لئے اس کی دوسری پوزیشن رہی۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل46 تمغے اپنے نام کئے تھے جس میں10 طلائی،19 نقرئی اور17 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے۔تمغے جیتنے میں جرمنی تیسرے نمبر پر رہا ۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل14 تمغوں پر قبضہ جمایاتھا جس میں 7 طلائی، 5نقرئی اور2 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ فرانس نے جرمنی سے3 تمغے کم حاصل کئے اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے کھلاڑیوں نے5 طلائی، 4 نقرئی اور 2 کانسی کے تمغوں کے ساتھ کل 11 تمغے جیتے۔ برطانیہ کے کھلاڑی کل7 تمغے جیت کر 5ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اس کے کھلاڑیوں نے 3 طلائی، 3 نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ چھٹی پوزیشن ہنگر ی کی رہی۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل5 تمغے جیتے جس میں2 طلائی، ایک نقرئی اور2 کانسی کے تمغے شامل تھے۔آسڑیا کے تمغوں کی تعداد بھی ہنگری کی طرح 5 تھی مگر اس نے کانسی کے3 تمغے حاصل کئے تھے جبکہ اسکے کھلاڑی کوئی نقرئی تمغہ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ آسڑیلیا نے جو 2 تمغے جیتے تھے وہ دونوں طلائی تمغے تھے۔ ڈنمارک نے کل 7 تمغے جیتے جس میں ایک طلائی، 2 نقرئی اور4 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ سوئٹزر لینڈ نے تمغوں کی فہرست میں10ویں اور آخری پوزیشن حاصل کی۔ اس کے کھلاڑیوں نے ایک طلائی اور2 نقرئی یعنی کل3 تمغے حاصل کئے۔

اٹلی، سوئیڈن، بلغاریہ اور چلی کے ایک، ایک کھلاڑی نے ان کھیلوں میں شرکت کی تھی مگر ان میں سے کوئی بھی کھلاڑی تمغہ حاصل نہیں کرسکا۔ ا ن کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان یونان کا تھا جس کے169 کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔آسڑیلیا کے ایک کھلاڑی نے ان کھیلوں میں شرکت کرکے 2 طلائی تمغے اپنے نام کئے ۔ انہوں نے800 میٹراور1500 میٹر دوڑ میں یہ تمغے جیتے تھے۔وہ ٹینس میں بھی ایک کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے مگر ان کے اس تمغے کو تمغوں کی فہرست میں جگہ نہیں ملی۔ ہوسکتا ہے تب ایک ہی کھیل میں کھلاڑی کو تمغے دیئے جاتے ہوں۔

دوسرا ایڈیشن1900میں فرانس میں ہوا:
دوسرے اولمپک کھیل 4سال بعد فرانس کے دارلحکومت پیرس میں 1900میں 14 مئی سے 28 اکتوبر تک منعقد ہوئے تھے۔
ان مقابلوں میں ایٹھلیٹکس، سائیکلنگ، جمنا سٹکس، تلوار بازی، شوٹنگ، تیراکی، ٹینس ، ویٹ لفٹنگ اور کشتی، تیز اندازی، بسکوئی پلوٹا، کرکٹ، کریکوئٹ، شہ سواری، فٹ بال، گالف، جمناسٹکس، پولو، کشتی رانی، رگبی یونین، سیلنگ، ٹینس اور رسہ کشی میں مقابلے ہوئے تھے۔ ان کھیلوں کے مقابلے14 اسٹیڈیمز میں ہوئے۔ اس مرتبہ بھی یعنی 33ویں اولمپکس کی میزبانی کا شرف فرانس کے دارلحکومت پیرس کو حاصل ہوا ہے ۔

جن26 ملکوں کے کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں شرکت کی تھی ان میں سے 21 ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ میزبان فرانس کے کھلاڑی سب سے زیادہ تمغے حاصل کر کے سرفہرست رہنے میں کامیاب رہے۔ اولمپک کھیلوں میں ایسا بہت کم مرتبہ ہوا ہے جب امریکا کو تمغوں کی فہرست میں پہلا مقام نہیں ملا ہو۔ فرانس کے کھلاڑیوں نے کل102 تمغے جیتے جس میں27 طلائی،38 نقرئی اور37 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ دوسری پوزیشن امریکا نے حاصل کی۔ اس نے کل48تمغوں پر قبضہ جمایا جس میں 19طلائی، 14 نقرئی اور15 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ تیسرے نمبر پربرطانیہ رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل32 تمغے اپنے نام کئے جس میں 15 طلائی،8 نقرئی اور9 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ آزادانہ طور پر جن کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں شرکت کی ان سب نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ ان کھلاڑیوں نے کل19 تمغے اپنے نام کئے جس میں8 طلائی،5نقرئی اور6کانسی کے تمغے شامل تھے۔ بلجیم کے کھلاڑیوں نے5ویں پوزیشن حاصل کی۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل17 تمغے اپنے نام کئے جس میں 6 طلائی،7 نقرئی اور4 کانسی کے تمغے شامل تھے۔9 تمغوں کے ساتھ سوئٹزر لینڈ چھٹے نمبر پر رہا۔

اس کے کھلاڑی 6 طلائی،2 نقرئی اورایک کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے ۔ جرمنی کے کھلاڑیوں نے کل 9 تمغے جیتے اور اس کی7ویں پوزیشن رہی۔ اسکے کھلاڑی4 طلائی، 3 نقرئی اور 2 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔8 ویں پوزیشن اٹلی کو ملی جس نے3 طلائی اور2 نقرئی تمغوں کے ساتھ کل5 تمغے جیتے۔ آسڑیلیا کے کھلاڑیوں نے کل 5 تمغے جیتے جس میں 2 طلائی اور 3 کانسی کے تمغے شامل تھے ۔ اس کو تمغوں کی فہرست میں 9واں درجہ حاصل ہوا۔ 10واں اور آخری درجہ دنمارک کا رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل6 تمغے جیتے جس میں ایک طلائی، 3 نقرئی اور6 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ا ن کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان فرانس کا تھا جس کے 720کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ برطانیہ کے 102 اور امریکا کے75 کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ آسڑیلیا کے 2 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے جنہوں نے2 طلائی اور3 کانسی کے تمغے اپنے نام کئے۔ اسٹین رولی نے ایٹھلیٹکس میں ایک طلائی اور 3 کانسی کے تمغے جیتے جبکہ فیڈرک لین پیراکی میں 2 طلائی تمغے جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔

یہ واحد اولمپک کھیل تھے جس میں گول کے بجائے چوکور تمغے دیئے گئے تھے۔ بعض کھیلوں میں کھلاڑیوں کو کوئی تمغہ نہیں ملا۔ بس تمغوں کی فہرست میں ان کے ملک کے آگے تمغوں کی تعداد لکھ دی گئی۔ ان کھیلوں میں کرکٹ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ 4 ملکوں نے اس میں شرکت کی منظوری دی تھی مگر نیدر لینڈز اور بلجیم نے اپنے نام واپس لے لئے تھے۔ برطانیہ نے فرانس کو شکست دیکر طلائی تمغہ اپنے نام کیا تھا۔

تیسرے اولمپک کھیل1904 میں امریکی شہر سینٹ لوئیس میں ہوئے:
امریکا کی ریاست /شہر سینٹ لوئیس میں تیسرے اولمپک کھیل 1904 یکم جولائی سے 23 نومبر تک ہوئے تھے۔ یہ پہلے اولمپک کھیل تھے جو کسی دارلحکومت میں نہیں ہوئے ۔
باکسنگ کو پہلی مرتبہ شامل کیا گیا تھا۔ تب سے اب تک ہر اولمپک کھیلوں میں سوائے 1912کے اسٹا ک ہوم کے، یہ کھیل شامل ہے۔ کشتی کو اس مرتبہ اس کھیلوں میں جٖگہ ملی۔ گریکو رومن کے علاوہ کیچ ریسلنگ کے مقابلے ان کھیلوں میں ہوئے۔ کیچ ریسلنگ کو بعد میں فری اسٹائل کا نام دیا گیا تھا۔ان کھیلوں کیلئے 5 اسٹیڈیمز کا استعمال کیا گیا۔ سب سے زیادہ کھیل 19,000 تماشائیوں کی گنجائش والے فرانسس اولمپک فیلڈ میں ہوئے۔
سینٹ لوئیس میں اس زمانے میں جانا کافی مشکل تھا۔ اس لئے یورپ کے زیادہ تر ممالک نے ان کھیلوں میں شرکت نہیں کی۔ جن 648 کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی اس میں سے لگ بھگ 70 کھلاڑی ایسے تھے جن کا تعلق شمالی امریکا سے نہیں تھا۔

جن12 ملکوں کے کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میںشرکت کی تھی ان میں سے تمام ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان12 ممالک کے علاوہ آزادانہ طور پر شرکت ہوئے کھلاڑیوں نے بھی 4 تمغے حاصل کئے جس میں 2 طلائی، ایک نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل تھا۔ اس ٹیم نے تمغوں کی فہرست میں مشترکہ طور پر5واں مقام حاصل کیا۔
میزبان امریکا کے کھلاڑی سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔اس کے کھلاڑیوں نے جتنے تمغے حاصل کئے اتنے تمغے باقی سب ملکوں کے کھلاڑی بھی نہیں جیت پائے۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل231 تمغے جیتے جس میں76 طلائی،78 نقرئی اور77 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ دوسرا ٹائٹل جرمنی نے حاصل کیا۔ اس نے کل15تمغوں پر قبضہ جمایا جس میں 4طلائی،5 نقرئی اور6کانسی کے تمغے شامل تھے۔ تیسرا درجہ کنیڈا کو حاصل ہوا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل 6 تمغے اپنے نام کئے تھے جس میں4طلائی،ایک نقرئی اورایک کانسی کاتمغہ شامل تھا۔ کیوبا نے چوتھی پوزیشن صل کی۔ ان کھلاڑیوں نے کل19 تمغے اپنے نام کئے جس میں 8 طلائی،5 نقرئی اور6 کانسی کے تمغے شامل تھے۔

بلجیم کے کھلاڑیوں نے 5ویں پوزیشن حاصل کی۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل3 تمغے اپنے نام کئے تھے جو تمام طلائی تمغے تھے۔ 4 تمغوں کے ساتھ ہنگری نے مشترکہ طور پر پانچواں درجہ اپنے نام کیا۔ اس کے کھلاڑی2طلائی،ایک نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ناروے کے کھلاڑیوں نے کل2 تمغے جیتے اور 7ویں پوزیشن پر رہا۔ اسکے کھلاڑی دونوں طلائی تمغے جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ 8واں درجہ آسٹریا کو ملا جس نے ایک طلائی اور ایک نقرئی اور ایک کانسی کے تمغے کے ساتھ کل 3 تمغے جیتے۔ برطانیہ کے کھلاڑیوں نے کل2 تمغے جیتے جس میں ایک طلائی اور ایک نقرئی تمغہ شامل تھا۔ اس کو تمغوں کی فہرست میں9ویں پوزیشن حاصل ہوئی۔10ویں نمبر پرسوئٹزر لینڈ رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل3 تمغے جیتے جس میں ایک طلائی اور 2 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ایک طلائی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرکے یونان نے 11ویں پوزیشن حاصل کی۔ آسڑیلیا نے3 نقرئی اور ایک کانسی کے تمغے کے ساتھ 12ویں اور فرانس ایک نقرئی تمغے کے ساتھ 13 ویں یعنی آخری درجے میں رہا۔
ا ن کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان امریکا کا تھا جس کے 526کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ دوسرے جن ممالک نے ان کھیلوں مین شرکت کی انکے کھلاڑیوں کی تعداد امریکا سے چوتھائی سے بھی کم تھی۔ کینڈا کے 56 کھلاڑیوں نے اور جرمنی کے22 کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا۔ آسڑیلیا کے ایک ہی کھلاڑی نے اپنے ملک کیلئے تمام 4 تمغے جیتے۔ فرانسس گیلی نے پیراکی میں 3 نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

چوتھے اولمپکس 1908کا لندن پہلی مرتبہ میزبان بنا:
برطانیہ کے دارلحکومت لندن میںپہلی مرتبہ اولمپک کھیل 1908 میں 27 اپریل سے 31 اکتوبر تک ہوئے تھے۔
کل22 کھیلوں میں110 طرح کے مقابلے ہوئے تھے۔ ان کھیلوں میں گالف کا ٹورنامنٹ بھی ہونا تھا مگر کھیلوں کے شروع ہونے سے چند روز قبل اس کو منسوخ کردیا گیا۔ فن لینڈ تب روسی سلطنت کا حصہ تھا اس لئے اس کے کھلاڑیوں کو روسی جھنڈے کے ساتھ مارچ پاسٹ میں حصہ لینا تھا مگر اسکے کھلاڑیوں نے بغیر پرچم کے مارچ پاسٹ میں حصہ لیا۔ سوئیڈن کا پرچم اسٹیڈیم میں نہیں لہرایا گیا تھا اس لئے اس کے کھلاڑیوں نے افتتاحی تقریب میں حصہ نہیں لیا۔ امریکا کے پرچم بردار رالف روز نے پرچم کو برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے سامنے جھکانے سے انکار کردیا تھا۔ انکے ساتھی مارٹن شیریڈن نے کہا کہ امریکی جھنڈا کسی زمینی بادشاہ کے آگے نہیں جھکے گا۔

جن 22ممالک کے کھلاڑیوں نے اس ایڈیشن میں حصہ لیا ان میں ترکی، فن لینڈ اور نیوزی لینڈ نے پہلی مرتبہ ان میں شرکت کی۔ نیوزی لینڈ نے آسڑیلیا کے ساتھ کھیلوں میں شرکت کی تھی۔ ان 22ممالک میں سے19 ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ لیکر وطن واپس گئے۔ اجن ٹائنا، ترکی اور سوٹزر لینڈ کے ایک، ایک کھلاڑی نے ان کھیلوں میں شرکت کی تھی اور کوئی تمغہ نہیں جیتا تھا۔
میزبان برظانیہ کو سب سے زیادہ تمغے ملے۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل146 تمغے جیتے جس میں56 طلائی،51 نقرئی اور39 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ امریکا کے کھلاڑیوں نے47 تمغوں کے ساتھ دوسرا درجہ حاصل کیا۔ اس کے کھلاڑی23 طلائی12نقرئی اور12 کانسہ کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔ سوئیڈن کی تیسری پوزیشن رہی۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل25 تمغے جیتے جس میں 8 طلائی، 6 نقرئی اور11کانسی کے تمغے شامل تھے۔ فرانس نے5 طلائی، 5نقرئی اور11 کانسی کے تمغوں کے ساتھ کل19 تمغے جیتے اور اس کا چوتھا درجہ رہا۔ 5 ویں پوزیشن جرمنی کو ملی جس کے کھلاڑیوں نے کل13 تمغے جیتے جس میں 3 طلائی،5 نقرئی اور5 کانسی کے تمغے شامل تھے۔3 طلائی، 4 نقرئی اور2 کانسی کے تمغوں یعنی کل 9 تمغوں کے ساتھ ہنگری نے چھٹا درجہ حاصل کیا۔ کل 16 تمغوں کے ساتھ کنیڈا7 ویں پوزیشن پر رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے 3 طلائی، 3 نقرئی اور10 کانسی کے تمغوں پر قبضہ کیا تھا۔ناروے نے کل 8 تمغے جیتے اور8 ویں پوزیشن کا حقدار ٹہرا۔ اس کے کھلاڑی 2 طلائی،3 نقرئی اور 3 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے ۔ اٹلی نے2 طلائی اور 2 نقرئی تمغوں کے ساتھ 9 ویں پوزیشن اپنے نام کی۔ بلجیم کل 8 تمغوں کے ساتھ پہلے 10 ملکوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے ایک طلائی، 5 نقرئی اور2 کانسی کے تمغے جیتے۔

ان چوٹی کے10 ممالک کے علاوہ آسٹرایشیا، دوسی سلطنت، ٖفن لینڈ اور جنوبی افریقا کے ایک، ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا۔
برطانیہ کے واندھام ہالس ویل نے ان کھیلوں میں400 میٹر کی دوڑ میں واک اوور کے ذریعے طلائی تمغہ جیتا۔ اولمپک کھیلوں میں واک اوور کے ذریعے دیا جانے والا یہ واحد تمغہ ہے۔جیجوں کی کال کی وجہ سے امریکا کے کھلاڑیوں نے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا تھا۔
ا ن کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان برطانیہ کا تھا جس کے 676کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ فرانس کے 363 کھلاڑی اور سوئیڈن کے 168 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے ۔ امریکاکے 112 کھلاڑیوں کا دستہ ان کھیلوں میں چوتھا سب سے بڑا دستہ تھا۔ ارجن ٹائنا، ترکی اور سوئٹزر لینڈ کے ایک، ایک کھلاڑی نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔
5واں اولمپکس ایڈیشن 1912 میںسوئیڈن میں منعقد ہوا:

سوئیڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم میں 6 سے 22 جولائی تک ہونے والے ایونٹ میں 28 ممالک شریک ہوئے تھے۔
کل 14ھیلوں میں102 طرح کے مقابلے ہوئے تھے۔ مصر، آئس لینڈ، پرتگال اور سربیا نے پہلی مرتبہ اولمپک کھیلوں میں شرکت کی تھی۔ جاپان نے بھی پہلی مرتبہ اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا تھا اور وہ اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے والا پہلا ایشائی ملک بنا ۔ چلی نے ایک ملک کے طور پر پہلی مرتبہ اولمپک کھیلوں میں شرکت کی تھی۔ اس کے کھلاڑی پہلا ایڈیشن جو 1896 میں ہوا تھا انفرادی طور پر شریک ہوئے تھے۔ آر مینیا کے کھلاڑی ترکی کی جانب سے ان کھیلوں میں شریک ہوئے تھے۔ سربیا کے کھلاڑی پہلی مرتبہ ایک آزاد ملک کے طور پر شامل ہوئے ۔ ان کھیلوں کے 100 سال بعد سوئیڈن کو 2008 میں دوسری مرتبہ میزبانی کا موقع ملا۔

18ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ لیکر اپنے وطن واپس لوٹے ۔ جاپان ،آئس لینڈ ، سربیا ا ور ترکی کے2,2 کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں شرکت کی تھی مگر کوئی تمغہ نہیں جیتا۔ مصر کے ایک کھلاڑی کو بھی کوئی تمغہ نہیں ملا۔ چلی، سوئٹز لینڈ،پرتگال، بوہیمیا، لگژمبرگ کے کھلاڑی بھی خالی ہاتھ لوٹے تھے۔ امریکا نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کئے۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل64 تمغے جیتے جس میں26 طلائی،19 نقرئی اور19 کانسہ کے تمغے شامل تھے۔ میزبان سوئیڈن نے امریکا سے ایک تمغہ زیادہ جیتا مگر اس کے طلائی تمغے امریکا سے کم تھے اس لئے وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل65 تمغوں پر قبضہ کیا جس میں23 طلائی،25 نقرئی اور17کانسی کے تمغے شامل تھے۔ برطانیہ نے41 تمغوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی جس میں10 طلائی،15 نقرئی اور16 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ٖفن لینڈ26 تمغوں کے ساتھ چو تھے نمبر پر رہا۔ اس کے کھلاڑی 9 طلائی،8 نقرئی اور9 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔14 تمغوں کے ساتھ فرانس کو 5واں مقام ملا۔ اس کے کھلاڑی7 طلائی،4 نقرئی اور 3 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔ چھٹے درجے پر جرمنی رہا۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل25 تمغے جیتے جس میں5 طلائی، 13 نقرئی اور7 کانسی کے تمغے شامل تھے۔4 طلائی اور 2 نقرئی یعنی کل 6 تمغوں کے ساتھ جنوبی افریقا کو 7واں درجہ حاصل ہوا۔ ناروے کل10 تمغوں کے ساتھ8و یں پوزیشن لینے میں کامیاب رہا۔ اس کے کھلاڑی 3 طلائی، 2 نقرئی اور5 کانسی کے تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ کنیڈا اور ہنگری مشترکہ طور پر9واں درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان دونوں کے کھلاڑیوں نے کل8 تمغوں پر قبضہ کیا تھا جس میں3 طلائی، 2 نقرئی اور3 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ان چوٹی کے 10 ممالک کے علاوہ آسٹرایشیا، اٹلی ، بلجیم کے 2،2 کھلاڑیوں نے اور ڈنمارک اور یونان کے ایک, ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا۔
اس ایڈیشن میں ایسے آخری کھیل تھے جس میں انفرادی طور پر کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ خواتین کی پیراکی کے مقابلے بھی پہلی مرتبہ ہوئے۔آسڑیلیا کی فینی ڈورک اور مینا وائی لائی خواتین تیراکی میں انفرادی طور پر طلائی اورنقرئی تمغہ جیتے والی پہلی خاتون تھیں۔
ا ن کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان سوئیڈن کا تھا جس کے 444کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ برطانیہ کے 279 کھلاڑی اور ناروے کے کھلاڑیان کھیلوں شریک ہوئے تھے۔ امریکا کے174 کھلاڑیوں کا دستہ ا چوتھا سب سے بڑا دستہ تھا۔

(نوٹ: چھٹے ایڈیشن کا انعقاد نہیں ہوا)ـ7ویں اولمپکس گیمز کی میزبانیبیلجئم نے 1920 میں کی:
کل 22کھیلوں میں162طرح کے مقابلے ہوئے تھے۔ 29 ممالک کے کھلاڑیوں نے اس کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ جرمنی، آسڑیا، ہنگری، بلغاریہ اوراوٹومن امپائیر (ترکی) کو ان کھیلوں میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ برازیل اور موناکو نے پہلی مرتبہ ایک ملک کے طور پر ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔
ان کھیلوں میں جن 29 ممالک کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا ان میںسے22ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ لیکر وطن واپس گئے۔ امریکا نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کئے۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل95 تمغے جیتے جس میں41طلائی،27نقرئی اور27کانسی کے تمغے شامل تھے۔ 5ویں ایڈیشن کا میزبان سوئیڈن دوسر ا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل64 تمغوں پر قبضہ کیا جس میں19طلائی،20 نقرئی اور25کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ٖفن لینڈ نے34 تمغوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اسکے کھلاڑیوں نے15 طلائی،10 نقرئی اور 9 کانسی کے تمغے جیتے۔برطانیہ نے42 تمغوں کے ساتھ چوتھا درجہ حاصل کیا جس میں 14طلائی،15 نقرئی اور13 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ٖمیزبان بلجیم کی36 تمغوں کے ساتھ 5 ویں پوزیشن رہی۔ اس کے کھلاڑی 14طلائی، 11 نقرئی اور 11کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔31 تمغوں کے ساتھ ناروے کو چھٹا درجہ ملا۔ اس کے کھلاڑی 13طلائی، 9 نقرئی اور9 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔ 7و یں پوزیشن اٹلی نے حاصل کی۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل23 تمغے جیتے جس میں13 طلائی، 5 نقرئی اور5کانسی کے تمغے شامل تھے۔9 طلائی اور 19 نقرئی13کانسی کے تمغوں یعنی کل 41تمغوں کے ساتھ فرانس 8 ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ نیدرلینڈز نے کل11 تمغوں کے ساتھ 9واں درجہ حاصل کیا۔ اس کے کھلاڑی 4 طلائی، 2 نقرئی اور5 کانسی کے تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ڈنمارک کے کھلاڑی اپنے ملک کو 10واں درجہ دلانے میں کامیاب رہے۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل 13 تمغوں پر قبضہ کیا تھا جس میں3 طلائی،9نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ شامل تھا۔ان چوٹی کے 10ممالک کے علاوہ جنوبی افریقا اور کنیڈا نے 3,3، سوئٹزر لینڈ نے2 اور استونیا اور برازیل نے ایک، ایک طلائی تمغہ حاصل کیا۔

میزبان بلجیم کے سب زیادہ کھلاڑیوں نے اس کھیلوں میں شرکت کی ۔اسکے دستے میں336 کھلاڑ ی شامل تھے۔ امریکا کا دستہ دوسرا سب سے بڑا دستہ تھا۔ اس کے 288 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے ۔ بر ظانیہ نے235 کھلاڑیوں کا دستہ بھیجا تھا۔ ارجن ٹائنا کے ایک کھلاڑی نے ان کھیلوں میں حصہ لیا جبکہ چلی کے2 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے۔ موناکو کے4 اور بھارت کے 5 کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ یہ تمام کھلاڑی خالی ہاتھ گھر لوٹے تھے۔
اٹلی کے تلوار با ز نیدو نادی نے5 طلائی تمغے جیتے تب ایک اولمپک کھیلوں میں سب سے زیادہ طلاٗئی تمغے جیتنے کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ سوئیڈن کے اسکار گومر سوان ان کھیلوں میں تمغہ جیتنے والے سب سے بڑی عمر کے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے شوٹنگ میں یہ نقرئی تمغہ جیتا۔ وہ اولمپک کھیلوں میں سب سے بڑی عمر میں تمغہ جیتنے والے کھلاڑی بھی ہیں۔

فرانس 1924 میں ہونے والے 8ویں اولمپکس کا میزبان بنا:
کل 17کھیلوں میں126طرح کے مقابلے ہوئے ۔ 44 ممالک کے کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا۔ جرمنی کو ان کھیلوں میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ایکواڈور اور آئس لینڈ، لتھوانیا اور یوروگوائے نے پہلی مرتبہ ایک ملک کے طور پر ان کھیلوں میں حصہ لیا۔ فلپائین کے کھلاڑ ی پہلی مرتبہ ایک ملک کی حیثیت سے شرکت ہوئے۔ فلپائین کے کھلاڑی اس سے پہلے انفرادی طور پر اولمپک کھیلوں میں شامل ہوئے تھے۔
27ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ لیکر وطن واپس گئے۔ امریکا نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کئے۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل99 تمغے جیتے جس میں45طلائی،27نقرئی اور27کانسی کے تمغے شامل تھے۔فن لینڈدوسرے درجے پر رہا۔ اس کے کھلاڑیوں نے کل37تمغوں پر قبضہ کیا جس میں14طلائی،13نقرئی اور10کانسی کے تمغے شامل تھے۔ ٖمیزبان فرانس نے38 تمغوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اسکے کھلاڑیوں نے13طلائی،15 نقرئی اور 10کانسی کے تمغے جیتے۔برطانیہ 34 تمغوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا جس میں9طلائی،13 نقرئی اور12کانسی کے تمغے شامل تھے۔اٹلی نے16 تمغوں کے ساتھ5واں درجہ حاصل کیا۔ اس کے کھلاڑی 8 طلائی، 3 نقرئی اور5 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔

25 تمغوں کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کو چھٹی پوزیشن ملی۔ اس کے کھلاڑی7 طلائی، 8 نقرئی اور10 کانسی کے تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔7واں درجہ ناروے نے حاصل کیا۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل10 تمغے جیتے جس میں 5 طلائی،2 نقرئی اور3کانسی کے تمغے شامل تھے۔4 طلائی اور 13 نقرئی12 کانسی کے تمغوں یعنی کل 29تمغوں کے ساتھ سوئیڈن 8و یں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ نیدرلینڈز نے کل10 تمغوں کے ساتھ 9واں درجہ حاصل کیا۔ اس کے کھلاڑی 4 طلائی،ایک نقرئی اور 5 کانسی کے تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے ۔بلجیم کے کھلاڑی اپنے ملک کو10 ویں پوزیشن دلانے میں کامیاب رہے۔ اسکے کھلاڑیوں نے کل 13 تمغوں پر قبضہ کیا تھا جس میں3 طلائی، 7 نقرئی اور3 کانسی کا تمغے شامل تھے۔ان چوٹی کے10 ممالک کے علا وہ آسڑیلیا نے3 طلائی اور ڈنمارک ، ہنگری اور یوگو سلاویہ نے2,2 طلائی تمغے جیتے۔ چیکو سلواکیہ، ارجن ٹائنا۔ استونیا، جنوبی افریقا اور یوروگوائے نے ایک، ایک طلائی تمغہ جیتا۔ یوروگوائے نے واحد طلائی تمغہ فٹ بال میں حاصل کیا تھا اور اس کو فٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا نے عالمی چمپیئن مانا تھا۔ اس وقت فٹ بال کا عالمی کپ شروع نہیں ہوا تھا۔

میزبان فرانس کے سب سے زیادہ کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں شرکت کی ۔اسکے 401کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا۔ امریکا کا دستہ دوسرا سب سے بڑا دستہ تھا۔ اس کے 299 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے۔ بر ظانیہ نے267 کھلاڑیوں کا دستہ بھیجا تھا۔
فلپائین کا ایک کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوا۔ایکوا ڈور کے 3 کھلاڑیوںنے ان کھیلوں میں حصہ لیا جبکہ نیوزی لینڈ کے 4 کھلاڑی ان کھیلوں میں شریک ہوئے ۔ موناکو اور بھارت کے 7,7 کھلاڑیوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے سوا یہ تمام کھلاڑی خالی ہاتھ گھر لوٹے تھے۔ نیوزی لینڈ کے آرتھر پوریٹ 100میٹر کی دوڑ میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔
ڈی ہارٹ ہوبرڈ اولمپک کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی افریقی۔ امریکی بنی۔ انہوں نے بروڈ جمپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ پیراک جونی ویس مولر نے 3 طلائی تمغوں کے ساتھ واٹر پولا میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔
ooooooo