امریکا دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے مگر ہمیں اس کی فوج کے سربراہ اور امریکی فوج کے ترجمان کا نام تک نہیں یاد حالانکہ ہم روزانہ دس بارہ اخبارات پڑھتے ہیں۔ روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے مگر ہمیں اس کے فوجی سربراہ اور اس کی فوج کے ترجمان کا نام بھی یاد نہیں۔ چین دنیا کی تیسری بڑی طاقت ہے مگر ہمارے حافظے میں نہیں کی چین کی فوج کے سربراہ کا اسم گرامی کیا ہے اور چینی فوج کے ترجمان کا ’’good name‘‘ کیا ہے۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی فوجی طاقت ہے مگر ہمیں اس کے فوجی سربراہ اور اس کی فوج کے ترجمان کا نام یاد نہیں۔ مگر پاکستان میں دس سال کا بچہ بھی جانتا ہے کہ ان دنوں ہمارے ’’اَن داتا‘‘ جنرل عاصم منیر اور پاکستانی فوج کے ترجمان کا نام جنرل احمد شریف چودھری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا کوئی بھی اہم واقعہ آرمی چیف کا نام ضرور زیر بحث آتا ہے۔ جہاں تک فوج کے ترجمان کا تعلق ہے تو وہ آئے دن سیاست دانوں کی طرح پریس کانفرنس برپا کرتے رہتے ہیں، 22 جولائی 2024ء کو بھی جنرل احمد شریف چودھری صاحب نے سیاست دان کی طرح نہ صرف یہ کہ ایک اور پریس کانفرنس کر ڈالی بلکہ انہوں نے عدالت عظمیٰ کا نام لیے بغیر عدالت عظمیٰ کے لیے انتباہ جاری کرنا بھی ضروری خیال کیا۔ جنرل احمد شریف چودھری کے انتباہ کا اسٹائل ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ والا ہے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے ’’نادان ججوں‘‘ کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ہمارا عدالتی اور قانونی نظام اگر 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔ جنرل احمد شریف نے ہیڈ ماسٹر ہی کے انداز میں ملک کے ’’گندے بچوں‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ’’عزم استحکام‘‘ فوجی آپریشن بلکہ ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشت گردی کی مہم ہے۔ اس مہم کا مقصد دہشت گردی اور کرمنل کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے۔ احمد شریف نے کہا کہ ’’مافیا‘‘ اس کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے اور اسے متنازع بنارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد حاصل نہ کیے جاسکیں۔ (روزنامہ جنگ کراچی، 23 جولائی 2024ء)
ہم نے جب سے لکھنا پڑھنا شروع کیا ہے یہی سنا ہے کہ عدالتیںباالخصوص اعلیٰ عدالتیں انصاف کرتی ہیں اور سیدنا علیؓ کا قول ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ مگر جنرل احمد شریف چودھری کا اصرار ہے کہ عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دے کر معاشرے میں انتشار اور فسطائیت پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ سیدنا علیؓ کی سیرت اور اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا علیؓ کے گھوڑے کی زین چوری کرلی اور پکڑا گیا۔ سیدنا علیؓ زین کے سلسلے میں اپنا دعویٰ لے کر قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے کہا کہ آپ اس سلسلے میں گواہ پیش کیجیے کہ یہ زین واقعتا آپ کی ہے اور یہودی نے چوری کی ہے۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا امام حسین اور سیدنا امام حسن کو گواہ کے طور پر پیش کیا مگر قاضی نے کہا کہ باپ کے حق میں بیٹوںکی گواہی قابل قبول نہیں۔ سیدنا علیؓ نے اس سلسلے میں اپنے ایک نوکر کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی نے کہا کہ مالک کے حق میں نوکر کی گواہی بھی قابل قبول نہیں۔ چنانچہ قاضی نے یہودی کو بری کردیا۔ یہودی نے اسلام کا یہ انصاف دیکھا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ اسلام میں عدالت کا مقام یہ ہے کہ سیدنا علیؓ جیسی جلیل القدر ہستی بھی عدالت میں صرف ایک عام سائل کی طرح تھی۔ دوسری بات یہ کہ سیدنا علیؓ جھوٹ بول ہی نہیں سکتے تھے مگر عدالت نے ان کے قول پر اعتبار کے بجائے قول کے سلسلے میں گواہوں کو طلب کیا۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے مقدمے میں انصاف کر ڈالا ہے تو فوج کے ترجمان جنرل احمد شریف چودھری فرما رہے ہیں کہ ایسے فیصلوں سے 9 مئی کے واقعات کے ملزمان کو ڈھیل ملی ہے اور اس ڈھیل سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا اور فسطائیت پھیلے گی۔
پاکستان میں عدالت کی تاریخ یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے ہمیشہ جرنیلوںکے بوٹ چاٹے ہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر نے بالادست جرنیلوں کے دبائو پر وہ فیصلہ کیا جس نے ملک میں انصاف کے قتل کی بنیاد رکھ دی۔ ذوالفقار علی بھٹو قتل کے مجرم نہیں تھے مگر جنرل ضیا الحق سے دبائو پر عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنادی۔ اس سزا کو اب جا کر عدالت عظمیٰ نے اپنی غلطی بلکہ اپنا جرم تسلیم کیا ہے۔ جنرل پرویز جب تک اقتدار میں رہے اعلیٰ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے لیے کوشاں رہے۔ اس وقت بھی ماتحت عدالتیں جرنیلوں کے زیر اثر عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ تو عدالت عظمیٰ کے چھے سات معزز جج ہیں جنہوں نے جرنیلی جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق کو بحال کیا ہے۔ یہ عمل سو فی صد انصاف کے تقاضوںکے عین مطابق ہے مگر فوج کے ترجمان کو انصاف کا عمل ملزموں کو دی گئی ڈھیل لگ رہا ہے اور انہیں اس ڈھیل سے معاشرے میں فسطائیت پھیلتی نظر آرہی ہے۔ جہاں تک 9 مئی کے واقعات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں گہری دھند ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ 9 مئی کے واقعات ’’ہوئے ہیں‘‘۔ یا ’’ہونے دیے‘‘ گئے ہیں یا ’’کرائے گئے‘‘ ہیں۔ تاہم اس امر پر قومی اتفاق رائے ہے کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ملوث ہیں تو انہیں ٹھوس شہادتوں کی روشنی میں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن اس بنیاد پر ملک کی سب سے بڑی اور سب سے مقبول جماعت پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں نہ دو چار دن میں بنتی ہیں اور نہ آسانی سے ختم ہوتی ہیں۔ نواز لیگ الف سے لے کر یے تک ایک ’’پنجابی پارٹی‘‘ ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی ایک وفاقی جماعت تھی مگر اب عرصے سے پیپلز پارٹی ایک ’’سندھی پارٹی‘‘ ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح ایم کیو ایم ایک ’’مہاجر پارٹی‘‘ اور اے این پی ایک پشتون پارٹی ہے۔ اس فضا میں یہ بڑی بات ہے کہ تحریک انصاف کی صورت میں ہمارے پاس ایک ایسی جماعت ہے جس کی جڑیں ملک کے تمام صوبوں میں ہیں اور جو پوری قوم کو سیاسی وحدت فراہم کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اس وقت ایک قیمتی قومی اثاثہ ہے اور جو جرنیل اس پر حملے کریں گے وہ قومی اثاثے پر حملے کے مرتکب ہوں گے۔ جنرل احمد شریف چودھری نے فسطائیت کا لفظ بھی خوب استعمال کیا ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ جرنیلوں سے بڑھ کر فسطائیت کا مظاہرہ آج تک کسی نے نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف نے بھی نہیں کی۔
فوج کے ترجمان جنرل احمد شریف چودھری صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عزم استحکام ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشت گردی مہم ہے اور ایک ’’سیاسی مافیا‘‘ اس کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ فوج کے ترجمان اگر اس مافیا کا نام بتادیتے تو بہت اچھا ہوتا لیکن گمان غالب ہے کہ ان کا اشارہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ اگر ایسا ہی ہے توجنرل احمد شریف کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ مافیا بھی جرنیلوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک سیاست دان جرنیلوں کا آلہ کار اور ان کے غلام بنے رہتے ہیں تو وہ قوم کا ’’اثاثہ‘‘ ہوتے ہیں، ’’محب وطن‘‘ ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ سیاست دان جرنیلوں کے اثر سے نکلتے ہیں وہ ’’مافیا‘‘ کہلانے لگتے ہیں۔ ویسے جنرل احمد جنرل احمد شریف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عزم استحکام کی مخالفت صرف عمران خان نے نہیں کی۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی نے بھی عزم استحکام کی مخالفت کی ہے تو کیا جنرل احمد شریف کے نزدیک جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کی قیادت بھی ’’مافیا‘‘ ہے؟ جہاں تک ہم نے پڑھا ہے مافیا معاشرے پر اپنی گرفت اور کنٹرول سے پہچانا جاتا ہے اور اتفاق سے پاکستانی معاشرے پر جیسی گرفت جرنیلوں کی ہے ویسی کسی کی نہیں۔ پاکستانی جرنیل پاکستانی سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج بدل رہے ہیں، آئین کو معطل اور بحال کررہے ہیں، پاکستان کی معیشت ان کی مٹھی میں ہے۔ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر صرف جرنیل حاوی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک کی سب سے بڑی ’’مافیا‘‘ جرنیل ہیں۔