معاہدوں کی کرامات سے برآمد بجلی کا جن (آخری حصہ)

335

پچھلی دو قسطوں میں معاہدوں کی جو کرامات بیان کی گئی ہیں ان سے برآمد جن کی کارستانیوں کا ماحصل یہ ہے کہ سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے فی یونٹ خرید رہی ہے۔ اپنے ایک بیان میں گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جبکہ حکومت ونڈ اور سولر کی 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کر رہی ہے۔ گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ان مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 کھرب روپے ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فی صد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے، حکومت دوسرے پلانٹ کو 17 فی صد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ حکومت تیسرے پلانٹ کو 22 فی صد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف تین پلانٹس کے لیے 370 ارب روپے بنتے ہیں جو سارا سال 15 فی صد لوڈ فیکٹر پر چل رہے ہیں، یہ سب معاہدوں میں کیپیسٹی پیمنٹ کی اصطلاح کی وجہ سے ہے، نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔ یہ پلانٹس 52 فی صد حکومت کی ملکیت ہیں، 28 فی صد نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، اس لحاظ سے 80 فی صد پلانٹس پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔
آئی پی پیزکے پاس اس ڈاکہ زنی کے علاوہ بھی دولت آفرینی کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ حکومت تیل سے چلنے والے آئی پی پیز کو رعایتی نرخوں پر تیل فراہم کرنے کی پابند ہے۔ جب بجلی بنائے بغیر ہی بھاری منافع ملتا ہو بجلی بنانے اور تیل پھونکنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ کے فضل کی تلاش میں مصروف ان آئی پی پیز کو یہ راستہ بھلا کون دکھائے گا کہ اس سبسڈائز تیل کو مارکیٹ میں بیچ کر مزید منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام بدعنوانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان پر اس وقت صرف بجلی کے شعبے میں 2600 ارب روپے سے زیادہ کا گردشی قرضہ یا سرکلر ڈیبٹ ہے۔
جب حکومت آئی پی پیز مالکان کو ان کے واجبات کی فوری طور پر مکمل ادائیگی میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ رقم ریاست پر قرض کی صورت واجب ہو جاتی ہے جسے سود سمیت ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ یہ گردشی قرضہ سود سمیت ریاست پاکستان کے غریب عوام سے نچوڑتی ہے اور آئی پی پیز کے ڈاکوئوں کو ادا کرتی ہے۔ اس پر ستم درستم یہ کہ ضرورت سے زائد پاور پلانٹس ہونے، دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہونے اور بے حدو حساب کرپشن اور بدعنوانی کے باوجود پاکستان کو اس وقت 6247 میگاواٹ بجلی کی کمی یعنی شارٹ فال کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام لوڈ شیڈنگ کی اذیت الگ سے بھگت رہے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری کی حقیقت اور بے تحاشا لوٹ مار کے نظام کا اصلی چہرہ… چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر… اس چنگیزیت کے علاوہ ہم نے اب تک بجلی کے بلوں میں جی ایس ٹی، انکم ٹیکس سے لے کر طرح طرح کے ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور سرچارجز کا ذکر نہیں کیا جو عوام کی ہڈیوں سے کشید کیے جاتے ہیں اور ملکی نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے سود کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔
تیس برس ہونے کو آرہے ہیں آئی پی پیز کو اس ملک پر مسلط ہوئے اس دوران نو برس پرویز مشرف کی فوجی حکومت رہی۔ تین مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ چوتھی مرتبہ اب ن لیگ کی حکومت ہے۔ پونے چار برس عمران خان وزیراعظم بنے رہے لیکن کوئی بھی اس مسئلے کی طرف پوری شدت سے متوجہ ہوا اور نہ ہی اس نے تندہی سے اس مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جواب یہ ہے کہ پا کستان ایک سرمایہ دار ریاست ہے۔ کوئی آئے کوئی جائے پاکستان میں صرف چہرے بدلتے ہیں۔ نظام ایک ہی چلتا رہتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام۔ سرمایہ دار ریاست سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے نہ کہ عوام کے مفادات کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان آئی پی پیز کو عالمی قوانین اور عالمی مالیاتی اداروں کا تحفظ حاصل ہے۔ پھر ان آئی پی پیز میں ہر بڑی سیاسی جماعت کے سیاست دانوں اور ہر عہد کے جرنیلوں کے حصے رہے ہیں۔ عدلیہ کے محترم جج حضرات اس برکھا میں الگ سے نہا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ مجال ہے اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی محترم جج نے اس حوالے سے کوئی سوموٹو لینے کی زحمت گوارا کی ہو۔ رہے بیوروکریٹ ان کی شمولیت اور تائید کے بغیر اس بہتی گنگا میں کون داخل ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ کیسے ان آئی پی پیز کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں جو اندرون و بیرون ملک ان کی جائدادوں کی خریدو فروخت کے بندوبست کررہے ہیں۔ ان کی تجوریاں بھررہے ہیں۔
یہ ہیں بجلی کے بحران کی اصل وجوہات لیکن پاکستان میں آتی جاتی سرمایہ دار حکومتیں اور سرمایہ دار میڈیا بجلی کی چوری اور کنڈہ سسٹم کو اس کی اصل وجہ باور کراتا ہے۔ آئے دن اس ضمن میں اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے ہیں، بجلی چوری کے خلاف میڈیا میں مہم چلائی جاتی ہے، بڑے بڑے بجلی چوروں کی گرفتاری کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ کبھی ایک صوبے کو الزام دیا جاتا ہے اور کبھی دوسرے صوبے کو۔ کبھی اس طرح کے سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا پختون خوا کے عوام کے بجلی کے بل پنجاب کے عوام ادا کریں گے۔
کبھی اس مسئلے کو ایسا رنگ دیا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پختون خوا علی امین گنڈا پور اس انداز میں گرڈ اسٹیشن پہنچتے اور بجلی کے بٹن آن کرتے ہیں جیسے گرڈ اسٹیشن کے ملازمین لوڈ شیڈنگ کے ذمے دار ہیں، کبھی صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی بجلی بحال کروانے کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں لیکن ان معاہدوں اور حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کی خباثتوں کا ذکر نہیں کیا جاتا جس میں بڑے پیمانے پر عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، بہر عنوان لوٹ کھسوٹ کی جاتی ہے اور چند سرمایہ داروں کے محلات کی راہداریوں میں سونے اور چاندی کی اینٹوں کی بھرمار کی جاتی ہے۔ ان کی دولت میں بے پناہ اضافے کے اسباب پیدا کیے جاتے ہیں اور انہیں فروغ دیا جاتا ہے چاہے اس دوران عوام دم گھٹ کر مر جائیں یا خود ہی اپنے گلے گھونٹ لیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جس طرح کسی بھی مسئلے کا کوئی حقیقی حل موجود نہیں ہے اس طرح بجلی کے بھاری بلوں اور لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کا بھی کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ بجلی کا شرعی حل یہ ہے کہ یہ ملکیت عامہ ہے جس کی نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ نجکاری کے بعد بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ نجی مالکان کے منافع کو یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ملک وقوم کی فلاح کے لیے۔ اسلام کا نظام خلافت پاور سیکٹر کی نگرانی کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس شعبے کا فائدہ تمام عوام کے لیے ہو۔ اسلام میں ریونیو کا تعین شریعت کرتی ہے نہ کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سود خور عالمی مالیاتی ادارے اور کرپشن کی غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے حکمران اور عمال حکومت۔