طاقت اور مقبولیت کا ملاکھڑا… پرانہ کھیل

345

وزیر اطلاعات اور نشریات عطا تارڑ نے جو باشرع ہیں شرح صدر کے ساتھ کہا یا حکم پر تعمیل فرمائی کہ وہ اعلان میڈیا کے ذریعے کردیںکہ تحریک انصاف کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ اس پر پابندی لگادیں، عمران خان، عارف علوی اور اسد قیصر کے خلاف دفعہ 6 کی کارروائی کردی جائے یوں نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ تحریک انصاف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے یہ وہی جملہ تھا جو پروفیسر غفور احمد نے یوں کہا تھا کہ ملک میں روزنامہ جسارت اور ذوالفقار علی بھٹو ایک ساتھ نکلیں گے، یعنی پی ڈی ایم سے اقتدار اور جیل سے عمران خان ایک ساتھ آزاد ہوں گے۔ پارٹیوں پر پابندی دلائل کی دنیا میں اپنی شکست کا اعتراف ہوا کرتی ہے۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی اس کے بعد صدر ایوب نے جماعت اسلامی پر ایبڈو کے تحت پابندی لگا کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور رفقائِ گرامی کو پابند سلاسل کرکے اپنی ناکامی اور خوف کا اعتراف کیا۔ پھر صدر یحییٰ نے ایوب خان کی تقلید میں عوامی لیگ پر پابندی کا شوق پورا کیا۔ پھر یہ سلسلہ ہائے دراز ہوا۔ عوامی قائد کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے۔ 73ء کے آئین کی موجودگی میں انہوں نے عوام کے میدان میں شکست کا یوں اعتراف کیا کہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی اور تو اور تحریک انصاف جو پابندی کے گھیرائو سے گھبرا رہی ہے اس نے 2020ء میں تحریک لبیک پر پابندی لگا کر اُس کے مقابلے میں ہتھیار ڈالے تھے۔ پھر صلح صفائی پر 2021ء پر یہ پابندی ہٹائی تھی اب ووٹ کو عزت دو کی دعویدار ووٹوں کی بدولت بننے والے حقداروں کو فارم 47 کی بدولت ملنے والی حکومت کے ذریعے پابندی سے کچلنے کی تیاری میں مصروف ہے۔
مسلم لیگ (ن) جو نمک کی طرح گھل رہی ہے وہ اپنی بقا پی ٹی آئی پر پابندی میں سمجھ رہی ہے۔ ملک میں طاقت اور مقبولیت کا کھیل جو ایوب خان اور فاطمہ جناح سے شروع ہوا طاقت بزور جیت گئی مگر مقبولیت کو کچل نہ سکی۔ سو اب ملک میں جمہوریت لڑکھڑا رہی ہے اور آئین غوطہ کھا رہا ہے۔ عدالتیں فیصلہ الجھا رہی ہیں۔ مقتدر اور اقتداری تلملا رہے ہیں کوئی کل سیدھی نہیں ہے، دماغوں پر اونٹ سوار ہے کہ یہ کس کل بیٹھے گا، خواجہ آصف تو اکتوبر کی تاریخ دے رہے ہیں کہ بہت کچھ ہوجائے گا۔ ایمرجنسی اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں ہورہی ہیں، ایمرجنسی سے حکومت مخالفین کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ڈالنے اور سانسوں کی باگ اپنے ہاتھ آنے سے دھمکا رہی ہے اور کچھ کہہ رہے ہیں کہ اس لڑائی میں یہ صورت حال آسکتی ہے کہ لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔ اور یوں ماہرین بٹھادیے گئے حکمرانی پر معاشی صورت کو سدھار دو کا ٹارگٹ اُن کو تھما دیا جائے گا۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ کسی کے کہنے کے مطابق عجب تیری قدرت عجب تیرے کھیل، بندر کے سر پہ چقندر کا تیل، کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان روبوٹ حکمرانوں کا ریموٹ کنٹرول آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان کے ہاتھ میں ہے جو مقتدرہ ہیں۔ جن کی گاڑی کا گیٹ بھی محترمہ بے نظیر نے کھول کر ان کا استقبال کیا اور اپنے ہاتھ کی تیار کردہ چائے سے حق مہمانداری کا فریضہ ادا کیا۔ بڑے بزرگ اہم بات بتا گئے ہیں کہ شرفا سے اُس وقت ڈرو جب ان کے پیٹ خالی ہوں، اشرافیہ سے اس وقت ڈرو جب ان کے پیٹ بھرے ہوں۔ اب خالی پیٹ اور پیٹ بھروں کا ملاکھڑہ زیادہ دور نظر نہیں آرہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ پارٹیوں پر پابندیوں کے بجائے اپنی لوٹ پر پابندی لگائو اور لٹیروں کو پابند سلاسل کرکے ان سے لوٹا ہوا اگلوائو یہی حل ہے۔