معاہدوں کی کرامات سے برآمد بجلی کا جن (دوسراحصہ)

361

پاکستان میں بجلی کے مسئلے پر جتنا غور کیا جائے اتنا ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ اس طرح کے اشعار زبان پر آنے لگتے ہیں جو کبھی بہت مشہور ہوا کرتے تھے۔

کسی کی خاک میں لٹتی جوانی دیکھتے جائو
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جائو

پاکستان میں کئی نجی پاور پلانٹس ایسے ہیں جو سارا سال ایک یونٹ بجلی پیدا نہیں کرتے مگر وہ دسیوں ارب روپے لے اُڑتے ہیں۔ یہ بھاری رقم حکمران اپنی حرام کے مال سے بنائی ہوئی جائدادیں بیچ کر ادا نہیں کرتے بلکہ محنت کش غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی پر ڈاکہ مار کر ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دان اور جرنیل اس استیصال، لاقانونیت اور تذلیل انسانیت کے سودوں میں ان آئی پی پیز کے ایجنٹ اور دلال ہیں۔ یہ وہ دلال ہیں جو غریبوں کا گوشت کاٹ کاٹ کر بیچ رہے ہیں لیکن پھر بھی نہ صرف باعزت ہیں، اس ملک کے حکمران ہیں بلکہ کئی آئی پی پیز کے خفیہ یا کھلے عام شیئر ہولڈرز اور منافعوں میں شریک ہیں۔

آئی پی پیز کے سرمایہ داروں کی طرف سے کیپیسٹی ادائیگی کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی سارا سال بجلی کی ضرورت ایک سی نہیں رہتی، جیسے پاکستان میں بجلی کی طلب گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہے مگر سردیوں میں کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ نجی پاور پلانٹس سے گرمیوں میں تو بجلی خریدی جائے گی مگر سردیوں میں یا تو بجلی کم خریدی جائے گی یا بالکل ہی نہیں خریدی جائے گی اس صورت میں ان پاور پلانٹس کو بند رکھنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھی ملک میں صنعتی سرگرمیوں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بجلی کی کھپت میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ آئی پی پیز کے مالکان کا کہنا یہ ہے کہ ان صورتوں میں پاور پلانٹ کو بند رکھنے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ یا تو حکومت ان سے بجلی خریدے اور اگر حکومت کو بجلی کی ضرورت نہیں تو پھر وہ ان پلانٹس کی پیداواری صلاحیت یا انسٹالڈ کیپیسٹی کے مطابق ادائیگی کرے تاکہ ان کے وہ اخراجات جو پاور پلانٹ کو فعال حالت میں رکھنے کے لیے ضروری ہیں انہیں ملتے رہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹوکے عہد حکومت 1993-96 میں جب نجکاری کو حکومت چلانے کے لیے امرت دھارا سمجھا جاتا تھا بجلی کی پیداوار کی جنکاری کے عمل کا آغاز ہوا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے اس سوچ اور عمل کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ نئے ڈیم بنائیں یا پاور پلانٹس کی تنصیب کریں۔ لہٰذا یہ کام نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا جس میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سرمایہ داریت کے عروج کا دور تھا جب دین اور دنیا کے تمام فوائد سرمایہ دارانہ نظام میں پو شیدہ سمجھے جاتے تھے۔ سرکاری شعبے کو طوائف کا وہ کوٹھا سمجھا جاتا تھا جہاں گناہ اور بدکاری کے علاوہ کسی اور بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 1994 کی اس انرجی پالیسی کو عالمی مالیاتی اداروں نے کاندھوں پر اٹھا لیا اس کی خوب خوب ستائش کی گئی۔ اس شعبے میں تقریباً چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جس میں بڑا حصہ امریکی کمپنیوں کا تھا۔

1994 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے صرف تین ماہ میں انتہائی تیزی سے آئی پی پیز کے ساتھ 13ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے 70 نئے MOUs اور اجازت نامے یعنی لیٹر آف انٹنٹ (LOIs) جاری کیے۔ 1995 تک 70 میں سے 27 پارٹیوں کو 6335 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے لیے لیٹر آف سپورٹ (LOS) جاری کیے۔ ان پارٹیوں نے اگلے تین چار سال میں بجلی پیدا کرنا تو شروع کردی مگر اس نے مستقبل میں بجلی کے شدید بحران کے بیج بھی بو دیے کیونکہ اس بجلی کا انحصار درآمد شدہ تیل پر تھا جس کی قیمتوں میں روزافزوں اضافہ ہورہا تھا۔ اس غلط پالیسی کی وجہ سے صورتحال یہ ہوئی کہ 2013 تک فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کی فی کلو واٹ لاگت 16 سے 18 روپے جبکہ ڈیزل سے 22 سے 24 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ حکومت بجلی اوسطاً 9 روپے فی کلو واٹ فروخت کر رہی تھی۔ دوسرے الفاظ میں آئی پی پیز جو بجلی پیدا کرکے حکومت کو فروخت کر رہے تھے ان پر حکومت پاکستان کو خزانے سے 9 سے 15 روپے فی یونٹ سبسڈی دینا پڑ رہی تھی چونکہ یہ سبسڈی مستقل بڑھتی رہی جب کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، اس وجہ سے 2013 تک گردشی قرضے 7 سو ارب روپے تک جا پہنچے تھے۔

بے نظیر سرکار نے سرمایہ کاروں کو نہ صرف 15 سے 18 فی صد یقینی منافع کی گارنٹی دی اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت کو ڈالر کے ریٹ کے ساتھ نتھی کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روپے کی قیمت گرے گی یعنی ڈالر چڑھے گا تو بجلی کی قیمت اوپر جائے گی۔ حد تو یہ ہے کہ ان نجی پاور پلانٹس کو بنانے پر ہونے والے اخراجات کا ایک قابل ذکر حصہ ان کمپنیوں نے حکومت پاکستان ہی سے سستے قرضوں کی صورت میں حاصل کیا۔ ان پرکشش شرائط پر معاہدوں کے لیے بیرونی سرمایہ دار بھاگے چلے آئے اور چند ہی سال میں نہ صرف عوام کے لیے بجلی کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں بلکہ لوڈ شیڈنگ کا عفریت بھی پورے ملک میں پھنکارے مارنے لگا۔

اترپردیش کی وزیراعلیٰ مایا وتی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ڈھول، ہریجن اور عورت پیٹنے کے لیے بنے ہیں‘‘۔ پاکستان کے سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے نزدیک پاکستان اور اس کے عوام بھی صرف پیٹنے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے بنے ہیں لہٰذا وہ اس بہتی گنگا میں نہانے اور نجی پاور پلانٹ لگانے سے کیوں باز رہتے۔ منافع خوری کے اس آسان، بے حساب اور محفوظ راستے پر عمل کرتے ہوئے ملک وقوم کی خدمت سے انہیں کون روک سکتا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر آئی پی پیز پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ دار گروپس ہیں۔ اس کھیل کا دوسرا اہم کھلاڑی چین ہے۔ اس کی بھی بہت سی آئی پی پیز موجود ہیں۔ امریکی سرمایہ داروں کے جانے کے بعد اب یہ بھی منافع خوری کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔

اس شعبے میں لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی installed capacity یعنی بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ ہے۔ سخت ترین گرمی میں بجلی کی جو سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہوتی ہے وہ 31 ہزار میگاواٹ ہے۔ مگر بجلی کی سپلائی کا سسٹم صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بجلی کا بوجھ یہ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ اب 22 ہزار میگاواٹ اور 46 ہزار میگاواٹ میں لمبا فرق ہے۔ سوال ہے جب آپ اتنی بجلی سپلائی ہی نہیں کر سکتے تو یہ اضافی بجلی گھر کیوں بنائے گئے ہیں؟ حتیٰ کہ تین بجلی گھر حال ہی میں مکمل ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہ عمل کیوں رکنے میں ہی نہیں آ رہا؟ کیوں ان آئی پی پیز کو اتنے زیادہ بجلی گھر لگانے دیے گئے، جبکہ یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ نہ صرف ملک کی کل انسٹالڈ کپیسٹی، پیک ڈیمانڈ سے بہت زیادہ ہو چکی ہے بلکہ یہ بھی پتا تھا کہ بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام پیک ڈیمانڈ سے بھی کہیں کم لوڈ اٹھا سکتا ہے؟ اس کی وجہ ان معاہدوں میں حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ اور کمیشن میں حصہ داری اور شرکت ہے جو پاور کمپنیوں کے منافع کو یقینی بناتے ہیں اور اس بات کا بھی اہتمام کرتے ہیں کہ آئی پی پیز کے مالکان ایک یونٹ بجلی بنائے بغیر صرف کپیسٹی پیمنٹس ہی وصول کرتے رہیں تو کمپنیوں کا منافع اور اس میں ان کا حصہ بے حساب رہے۔(جاری ہے)