وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی۔ ایم۔ ایف سے یہ آخری معاہدہ ہے ہم معیشت کو اتنا مستحکم کر دیں گے کہ کسی ملک سے قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ مگر حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب کا بیان صرف بیان بازی ہے کہ کیونکہ موصوف جو کچھ کر رہے ہیں وہ قومی خزانے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے جب تک عشرت گہی خسرو کے مکینوں کو غیر ضروری مراعات اور سہولیات جاری رہیں گی معیشت بدحال ہی رہے گی۔ وطن ِ عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض لیا جاتا ہے اس کا تعلق ملک وقوم کی خوشحالی سے نہیں اشرافیہ کی عیاشیوں سے رہا ہے اور اس کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض لیا جاتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وطن ِ عزیز میں ایسا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں جو قرض کی رقم کا حساب لے۔ عدم استحکام کی اس روایت نے قوم پر قرضوں کا بوجھ لاد دیا ہے۔
کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت دکھائی دینے لگتا ہے کہ قیامِ پاکستان کا مقصد منزلِ مراد کا حصول نہیں تھا بلکہ حاکمیت کا اصول تھا کیونکہ قیامِ پاکستان سے تاحال ملک و قوم کو ملکی وسائل سے محروم رکھا گیا ہے اور حکمران طبقہ نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور قومی مسائل کا سامنا قوم کررہی ہے ارکانِ پارلیمنٹ کو عشرت گہہ خسرو کا مکین بنا دیا گیا ہے جس پر بے حساب پیسہ خرچ کیا جارہا ہے اور قوم روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مقتدر طبقے کی تنخواہوں میں 300 فی صد اضافہ کر دیا جائے تو آئی۔ ایم۔ ایف کا قرضہ کیسے اْتارا جائے گا؟ اگر وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف ملک و قوم سے مخلص ہیں تو اْنہیں حکومتی ارکان کی مراعات اورسہولتوں سے قومی خزانے کو محفوظ کرنا ہوگا ورنہ قرض اْتارنے کے لیے مزید قرض لے کر سود کی ادائیگی کرتے رہیں گے۔
ظاہر ہے کہ یہ عمل آئی۔ ایم۔ ایف سے نجات نہیں دلا سکتا آئی۔ ایم۔ ایف سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسی حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔ جو ملک و قوم کی خدمات بلا کسی معاوضے کے کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں اگر ایسی حکومت قائم کر دی جائے تو آئی۔ ایم۔ ایف کے در پر سر نگوں ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ایسی حکومت میں شامل شخصیات قومی خزانے پر بوجھ نہیں بنیں گی۔ ان پانچ برسوں میں مقتدر طبقات کو دی جانے والی مراعات اور سہولتوں پر خرچ ہونے والی رقم اتنی ہو گی کہ آئی۔ ایم۔ ایف سے قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے حکمران قوم کو یہی مژدہ سنا رہے ہیں کہ آئی۔ ایم۔ ایف کے در پر جانے کا یہ آخری موقع ہے اس کے بعد ہم عالمی مالیاتی ادارے کی طرف آنکھ اْٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے اور قوم یہ سننے کے لیے ترس رہی ہے کہ وطنِ عزیز کا کوئی وزیرِ اعظم سینہ تان کر یہ کہے۔
ہم نے مدت سے اْلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ داور تیرے درہم و دینار پہ خاک