قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد حکومت کا اتنا بھڑکنا تو بنتا ہے۔ یہ بھڑک اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان کے باب میں عدالت عظمیٰ کے مسلسل ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ سے حکومت اس قدر تنگ اور بیزار آگئی ہے کہ اب نوبت تخت یا تختہ تک پہنچ گئی ہے۔ تفصیل اس ابہام کی یہ ہے کہ گزشتہ پیر کی سہ پہر وزیراطلاعات عطا تارڑ کیمروں کے سامنے اس موڈ میں رونما ہوئے کہ ’’بس بھئی بس، بہت کھلواڑ ہوگیا۔ آج کے بعد پاکستان اور تحریک انصاف کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں‘‘۔ ریاست وحکومت اب مزید فتنہ وفساد برداشت نہیں کرسکتی اور تحریک انصاف پر کامل پابندی لگا رہی ہے۔
جس وقت یہ خبر سامنے آئی ہم ایک بس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کنڈکٹر زیادہ کرایہ لینے کی کوشش میں ایک مسافر سے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ وہ مسافر کو یہ سمجھانے میں ناکام تھا کہ زیادہ کرایہ لینا منافع خوری کی اس کی جبلت کا تقاضا نہیں ہے بلکہ کل رات حکومت نے پٹرول کی قیمت میں تقریباً دس روپے فی لٹر کا اضافہ کردیا ہے۔ اسی اثنا میں سامنے سے غلط موڑ کاٹنے والی ایک کار سے بچائو کی کوشش میں ہماری بس کے ڈرائیور نے زور سے بریکیں لگائیں۔ ساتھ ہی غلیظ گالیوں کا فوارہ بھی اس کے منہ چھوٹ نکلا۔ پیچھے مڑکر اس نے مسافر کو خونخوار نظروں سے دیکھا اور کنڈکٹر کو ڈانٹتے ہوئے بولا ’’دفع کر اگر کرایہ بڑھا کر نہیں دے رہا ہے‘‘۔ مسافر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن ڈرائیور کی طرف دیکھ کر چپ ہو گیا۔
ہمارے ہم نشست جو گرمی کی شدت اور حدت سے بے حال تھے۔ بیزاری سے بولے ’’ابھی تو لوگوں کو تب پتا چلے گا جب بجلی کے بل آئیں گے۔ حکومت نے گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کی قیمتوں میں پانچ سے سات روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا ہے۔ اس کے علاوہ فکسڈ چارجز میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ ٹیکسوں کی ایک طویل قطار اس کے علاوہ ہے۔ کمائے جائو اور بجلی کے بل بھرتے رہو۔ بیوی بچوں کو زہردے دو۔ اس پر خون جلانے کے لیے ہر فون کال کی ابتدا پر اس منحوس کی عوام کو تین مہینے بجلی کے بلوں میں ریلیف کی خوشخبریاں سنو۔ لعنت ہے اس حکومت پر۔
ہم نے اکتاکر موبائل فون دوبارہ اسٹارٹ کردیا اور سوشل میڈیا کے جنگل میں گم ہوگئے جہاں پٹرول اور بجلی کے نرخوں سے پریشان گھبرائے ہوئے عوام کہیں زیر بحث نہیں تھے۔ ہر وقت عوام کو باخبر رکھنے والے ٹی وی چینلز کے نزدیک بھی عوام پر پڑنے والی اس افتاد کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ ہر طرف عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کی گونج تھی۔ حکومت کی حلیف اور حریف جماعتوں کی طرف سے احتیاط کے مشورے دیے جارہے تھے۔ ٹاک شوز کے مرد دانا اور غیردانا کی گرما گرمیوںکا موضوع بھی اس کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔
پاکستان ایک ایسے تابوت کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے جہاں ہر آنے والا اس تابوت میں عوام کو اچھی طرح ٹھونس کر خوب طاقت سے کیلیں ٹھونک رہا ہے تاکہ عوام کا نکلنا تو ایک طرف ان کی آوازبھی با ہر نہ آسکے۔ کسی کی توجہ بھی عوام کی طرف نہ جاسکے اس کے لیے ایسے ڈرامے رچائے جاتے ہیں جن سے کچھ عرصے کے لیے تابوت اور اہل تابوت کے دکھوں اور پریشانیوں کی طرف کسی کا دھیان نہ جانے دیں۔ ایک تماشے کا شور شرابا مدہم ہوتا ہے تو دوسرا تماشا شروع کردیا جاتا ہے۔
ایچ جے ویلز موت کے قریب تھا۔ اس کے دوست رشتے دار چاہتے تھے کہ مرنے سے پہلے اس عظیم مصنف کے منہ سے کچھ آخری اور یادگار کلمات سن سکیں۔ انہوں نے ایچ جے ویلز کو بار تنگ کیا تو وہ بولے ’’آپ دیکھ نہیں رہے میں مرنے میں بہت مصروف ہوں‘‘۔ آج کل ن لیگ کی بھی کچھ ایسی ہی مصروفیات ہیں۔ وہ اپنے جنازے کو ایسی صورت دینے میں لگے ہوئی ہے کہ انہیں چار کندھے بھی میسر نہ آسکیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ ختم ہو رہے۔ ہر شخص سمجھ رہا ہے کہ یہ خاتمے کے قریب ہیں۔ عوام میں ان سے نفرت جس رفتار سے بڑھ رہی ہے یہ اس سے آگاہ ہیں۔
پی ٹی آئی پر پا بندی کے فیصلے سے حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جو عدالت عظمیٰ کل تک پی ٹی آئی کو ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت قرار دیتی رہی ہے کیا اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر اپنی مہر لگادے گی۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی اکثریت پی ٹی آئی سے لاڈلے پن کی جس انتہا پر ہے کیا یہ بات ممکن ہے کہ ٹھوس شواہد اور دلائل کے باوجود وہ اس پر پابندی لگادیں۔ بفرض محال اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگ بھی گئی تو کیا ہوگا؟ کل یہ جماعت کسی اور نام سے سامنے آجائے گی اور پہلے سے زیادہ مقبول ہوگی۔ الیکشن سے پہلے بھی جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کو مختلف مقدمات میں تیزرفتاری سے سزائیں دلوائی گئی تھیں تو عوام میں ان سے ہمدردی کے جذبات میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔
فوجی صدر جنرل ایوب خان کے دور میں 1964 میں جماعت اسلامی پر ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات عائد کرکے پابندی لگائی۔ عدالت عظمیٰ نے بحال کردیا۔ 26 مارچ 1971 کو صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا الزم لگاتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب کا عدم تعاون کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔ نیشنل عوامی پارٹی پر 1971 میں جنرل یحییٰ خان اور 1975 میں بھٹو نے پابندی لگائی۔ اس جماعت کے کارکن سردار شیرباز مزاری کی عوامی نیشنل پارٹی میں منظم ہوگئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پابندیوں سے سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوتیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو کیسے کیسے ظلم اور کن کن پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی شہادت کے مختصر عرصے بعد ہی پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔
حکومت کو جس کسی نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کا مشورہ دیا ہے وہ حکومت کا خیر خواہ نہیں چھپا دشمن ہے۔ اچھا ہوا حکومت اس فیصلے سے دستبردار ہوگئی ورنہ پی ٹی آئی کے مقابل ایک اور ہزیمت اس کا مقدر ہوتی۔ ن لیگ ایسی گئی گزری کب سے ہوگئی کہ سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ایسے ہتھکنڈے اس وقت اختیار کیے جاتے ہیں جب کوئی جماعت ذہنی طور پر شکست قبول کر لیتی ہے۔ باقی جو لوگ ن لیگ کی درگت پر خوش ہیں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں خاطر جمع رکھیں پی ٹی آئی کو دوبارہ اقتدار میں آنے دیں پتا لگ جائے گا سیاسی فاشزم کیا ہوتا ہے؟