تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

484

علامہ اقبال نے کہا تھا:

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

علامہ نے تو وطن کے بارے میں متفکر ہونے کی وعید سنائی تھی، لیکن اب جدید دنیا میں انسانیت کی بقا اور مقصدیت پر سوال کیا جارہا ہے۔ سوفٹ ویئر انجینئر حسان احمد صاحب نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک فکر انگیز اور چشم کشا مضمون لکھا ہے، اُس میں وہ لکھتے ہیں: ’’بیسویں صدی کے آخر میں ’’نئے عالمی نظام اور تہذیبوں کے تصادم‘‘ کی صدائے بازگشت سنائی دی تھی، لیکن اب ’’عظیم تعمیر نَو اور کائنات وعالَمِ انسانیت کے مستقبل‘‘ کی بات ہورہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے چلانے والوں کے افکار سامنے آرہے ہیں، ایکس ایپ کے مالک اور دنیا کے مال دار ترین انسان ’’اِیلون مَسک‘‘ نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’’اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’’معدومیت پسند (Extinctionists)‘‘ جو پوری انسانیت کی تباہی چاہتے ہیں اور ’’توسیع پسند (Expansionists)‘‘ جو ستاروں کی تسخیر اور کائنات کے رازوں کو سمجھنا چاہتے ہیں‘‘، انہوں نے مزید لکھا: ’’ذرا سوچیں: اگر معدومیت پسندوں کے فلسفے کو مصنوعی ذہانت (AI) کے پروگرام میں شامل کردیا جائے، بلکہ مصنوعی ذہانت کا یہ کام جی پی ٹی گوگل اور چیٹ جی پی ٹی پہلے ہی کر رہے ہیں، تو اس کے نتائج کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔

دراصل ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ ٔ حرارت میں غیر معمولی اضافہ سائنسدانوں اور ان کے مربّیوں یعنی سرمایہ داری کے بڑے بڑے عفریتوں کو پریشان کر رہا ہے، ان کے نزدیک ’’گرین ہائوس گیسوں کا غیر معمولی اخراج‘‘ مستقبل کی تباہ کن تصویر پیش کر رہا ہے۔ گرین ہائوس گیسوں سے مراد کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھَین، نائٹرس آکسائیڈ اور مختلف قسم کے مصنوعی کیمیائی ذخیرے ہیں، یہ زمین سے خارج ہونے والی توانائی اور تابکاری کو جذب کرتے ہیں اور ماحول میں حرارت اور موسمی تبدیلی کے اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ خطرات بھی لاحق ہیں کہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کے نتیجے میں بڑے بڑے برفانی تودے پگھل سکتے ہیں اور سیلابوں کے ذریعے آبادیوں کی تباہی اور غرقِ آب ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔

ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے: ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں تیس فی صد حصہ فوڈ انڈسٹری کا ہے، اسی طرح زہریلی میتھَین گیس کے اخراج کا ایک بڑا سبب بھینسوں اور گائیوں وغیرہ کے بڑے بڑے ’’لائیو اسٹاک فارم‘‘ ہیں جو دنیا بھر کو اُن کا گوشت سپلائی کرتے ہیں، اس لیے یہ تحریک بھی سر اٹھارہی ہے کہ بڑے بڑے ’’مویشی فارم‘‘ ختم کرکے اِن مویشیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے اور مصنوعی گوشت کا استعمال شروع کیا جائے۔ ہالینڈ اور آسٹریلیا دنیا میں لائیو اسٹاک سے متعلق مصنوعات کے بڑے برآمد کنندگان ہیں، وہاں انہیں محدود کرنے کے لیے قانون سازی کی تحریک بھی بپاہو رہی ہے۔ یہ بھی خیال ہے: زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے جو مصنوعی کھاد استعمال ہورہی ہے، وہ بھی بڑی خرابیوں کا سبب ہے۔ یہ تو آپ سب کو معلوم ہے: گائیوں کی جلدی بیماری کے وائرس اور مرغیوں میں ’’برڈ فلو‘‘ کے سبب بہت بڑی تعداد میں بڑے جانوروں اور مرغیوں کو ہلاک کیا جاتا رہا ہے، اسی طرح نیوزی لینڈ میں شہد کی مکھیوں میں خطرناک وائرس دریافت ہونے پر شہد کی مکھیوں کے فارم کے مالکان کو انہیں ہلاک کرنے کا حکم ملا۔ یہ تحریک بھی چل رہی ہے کہ لوگ خوراک کے لیے چینیوں کی طرح جھینگر اور کیڑے مکوڑوں کی طرف آئیں۔

دوسری طرف تضاد کا عالَم یہ ہے: ماحولیاتی تحفظ کے لیے جو لوگ عالمی اقتصادی فورم میں جمع ہوتے ہیں، وہ اپنے ذاتی جہازوں پر سفر کر کے آتے ہیں اور ان کے یہ ذاتی جیٹ جہاز ایک گھنٹے کی پرواز میں بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں۔ اسی طرح کووِڈ 19کے بارے میں اب تک یہ شبہ موجود ہے کہ چین کے شہر ووہان میں یہ وائرس لیبارٹری میں پیدا ہوا، اس کی تیاری کے لیے فنڈنگ کثیر الممالک امریکی کمپنیاں کر رہی تھی، چنانچہ اس کے بعد چین نے مختلف لیبارٹریوں کو بند کر کے غیر ملکی سائنسدانوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور مقامی سائنسدانوں کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگادی تھی۔ اس لیے کورونا وائرس کے پھیلنے کی اصل وجہ جاننا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ کورونا ویکسین بنانے والی امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی ’’فائزر‘‘ پر بھی شبہات ہیں کہ اس کے نتیجے میں کئی دوسری پیچیدہ بیماریاں پیدا ہورہی ہیں، چنانچہ حساسیت اور متعدی امراض کے امریکی ادارے ’’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشنز ڈیزیز‘‘ کے ڈائریکٹر اَنتھونی اسٹیفن فائوچی پر امریکن کانگریس میں بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔

یہ سوال بھی سامنے آرہا ہے: جب روبوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے، انسانی دماغ کی جگہ مصنوعی ذہانت کا چلن عام ہوجائے گا، تو انسان کا مصرف کیا رہ جائے گا۔ بے کار لوگوں کا ایک لشکر ِ جرّار ہوگا اور یہ سوال پیدا ہوگا: کیا انسانوں کی ضرورت اب بھی باقی ہے یا انہیں مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کی تدبیر کی جائے گی۔ ان ماہرین نے لکھا ہے: فی الحال تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں، انہیں کمپیوٹر گیمز اور منشیات کے ذریعے خوش رکھا جائے گا، البتہ ہم اُس دور کے مسلمانوں کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں: رہائش، لباس اور خوراک کے تمام غموں سے آزاد ہوکر اللہ کی عبادت میں محو ہوجائیں اور اپنی روح کو تسکین پہنچائیں۔ ماہرین نے ایک تجویز یہ پیش کی ہے: جب سب انسان بے کار ہوجائیں گے تو ایک فارمولا یہ ہوگا: عالمی معیار کا ایک بنیادی گزارہ الائونس سب کے لیے جاری ہوسکتا ہے۔ ماہرین یہ خواب بھی دیکھ رہے ہیں: آنے والے زمانے میں مصنوعی ذہانت اور اِحیائی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے العیاذ باللہ! کیا انسان خدائی انداز میں حیات تخلیق کرنے یا زندگی کو نئی شکل دینے یا نئی حیات پر قادر ہوجائے گا۔ اِحیاء اور اِمَاتَت یعنی حیات عطا کرنا اور سلب کرنا اسلام کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے، وہی خالق، مُحِیی اور مُمِیْت ہے۔

ترنول اسلام آباد میں تنظیم المدارس اہلسنّت پاکستان سے ملحق ایک حسین وجمیل دینی، تعلیمی اور تربیتی مرکز ’’جامعہ محمدیہ سیفیہ‘‘ ہے۔ محترم ڈاکٹر کرنل (ر) محمد سرفراز سیفی اس کے سربراہ ہیں، وہ شیخ ِ طریقت بھی ہیں، ان کے صاحبزادگان معیاری دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عصری تعلیم سے بھی آراستہ ہیں، وہ اپنے ادارے میں معلّمین کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد معظم فراز نے انگلینڈ سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں اس شعبے کے سربراہ بھی ہیں، میں نے ان سے پوچھا: گوگل، شاملہ اور دیگر ایپس میں پہلے سے معلومات کا ذخیرہ موجود ہے، اس کے ہوتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی ضرورت کیوں پیش آئی، انہوں نے بتایا: گوگل اور اس جیسی دیگر ایپس کی مثال ڈیپارٹمنٹل اسٹور کی ہے یا پنساری کی کئی کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ایک بڑے اسٹورکی سی ہے، جبکہ مصنوعی ذہانت کی مثال فارمسٹ (ماہر ِ علم الادویہ) کی ہے، جو مسئلہ آپ کو درپیش ہے، وہ اس کے مختلف حل آپ کے سامنے پیش کرتا ہے، میں نے ان سے عرض کیا: اس کا مطلب یہ ہے: آخر ِ کار جو حل اختیار کرنا ہے، اس کا فیصلہ تو انسانی دماغ ہی کرے گا، تو کیا انسانی دماغ کی مکمل نفی کی جاسکے گی۔ الغرض پہاڑ جیسے سوالات، اِشکالات، اِبہامات اور شبہات تو رہیں گے، مستقبل میں کیا مناظر سامنے آتے ہیں، اس کا حقیقی اور قطعی علم اللہ کے پاس ہے، پس آنے والے دور میں بہت سے دینی، فکری اور فقہی سوالات ہمارے جواں عمر علماء کے منتظر ہیں۔

حال ہی میں ہمارے ایک بزرگ عالم دین نے دیوبندی، بریلوی خلافیاتِ مسلک پر مجھے اپنے کئی رسائل بھیجے ہیں، حالانکہ ان موضوعات پر وافر علمی ذخیرہ پہلے سے موجود ہے۔ دعا ہے: اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ تمام تر جسمانی، روحانی، عملی اور علمی قویٰ کی سلامتی کے ساتھ تادیر قائم ودائم رکھے اور ہم ان سے فیض پاتے رہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے: ہم اپنے عہد کے لَمس سے کس قدرنا آشنا ہیں، اپنے عہد کے تقاضوں اور ممکنہ طور پر پیش آنے والے دینی اور فقہی اشکالات کے بارے میں ہماری آگاہی کی علمی سطح کیا ہے اور ان کے لیے ہماری تیاری کیا ہے۔ پس جواں عمرعلماء اور مفتیانِ کرام کو ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے: اپنے عہد کے چیلنجوں کے لیے علمی، ذہنی اور فکری طور پر تیاری کریں، ایسا نہ ہو کہ ہم ان چیلنجوں کو سمجھنے سے بھی قاصر ہوں، حل تو بعد کی بات ہے۔ سوشل میڈیا کے سیلاب کی وجہ سے جدید ذہن بہت زیادہ آزاد رو اور آزاد خیال ہوچکا ہے، ماسوا ان کے جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہو اور وہ اُنہیں علمی، فکری اور اخلاقی کجی اور لغزش سے محفوظ رکھے، الغرض حاملین ِ دین کو اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر مزید گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔