بنگلا دیش میں ہنگامہ آرائی کیوں؟

389

بنگلا دیش میں طلبہ نے 1971 کی قیامِ بنگلا دیش کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج سے لڑائی میں مارے جانے والوں کی اولاد کی اولاد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹے کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے وہ اب خوں ریز ہوچکی ہے۔ جمعرات کو طلبہ تحریکی اپیل پر مکمل ملک گیر ہڑتال ہوئی۔ یو این ہیومن رائٹس چیف واکر ٹرک نے بنگلا دیشی حکومت سے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے قائدین سے مذاکرات کیے جائیں۔ وزیر ِاعظم شیخ حسینہ واجد نے بدھ عاشورہ کی مناسبت سے سیاہ ساری زیب ِ تن کرکے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ تحریک کے دوران ہلاکتوں کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی۔
طلبہ کے شدید احتجاج پر وزیر ِاعظم شیخ حسینہ واجد نے، جن کے والد شیخ مجیب الرحمن بنگلا دیش کے قیام کی لڑائی کے سالارِ اعلیٰ تھے، سرکاری ملازمتوں میں ہر طرح کا کوٹا 2018 میں ختم کردیا تھا۔ یکم جولائی کو ایک ہائی کورٹ نے یہ کوٹا بحال کیا مگر عدالت عظمیٰ نے اس پر عمل معطل کردیا ہے۔ تو پھر اِتنی ہنگامہ آرائی کیوں؟
طلبہ کے احتجاج کے دوران اب تک 7 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ حکومت نے ڈھاکہ یونیورسٹی سمیت تمام بڑی جامعات اور کالج غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیے ہیں۔ یہ صورتِ حال بنگلا دیش میں پڑھنے والے پاکستانی نوجوانوں کے لیے بھی بہت تشویش ناک ہے۔ نائب وزیر ِاعظم اور وزیر ِخارجہ اسحاق ڈار نے ڈھاکہ میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر سید معروف سے رابطہ کرکے اُنہیں ہدایت کی ہے کہ پاکستانی طلبہ کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ حکومت نے پاکستانی طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ احتجاج اور احتجاجی طلبہ سے دور رہیں۔
سیاسی امور کے تجزیہ کاروں نے اس امر پر افسوس ظاہر کیا ہے کہ حکومت بھی تشدد کا جواب تشدد سے دے رہی ہے۔ طلبہ کو رام کرنے کے بجائے اُنہیں مزید تشدد پر اُکسایا جارہا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ معاملہ صرف کوٹے کا نہیں، طلبہ بہت سے اشوز پر دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔ بنگلا دیش کے دیگر بہت سے سیاسی مسائل کی طرح اِس بحران کے ڈانڈے بھی 1971 کے واقعات سے جا ملتے ہیں۔ نام نہاد ’فریڈم فائٹرز‘ اور اُن کی اولاد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹا 1972 میں اُس وقت کے وزیر ِاعظم شیخ مجیب الرحمن نے نافذ کیا تھا۔ مجوعی طور پر صرف 44 فی صد ملازمتیں میرٹ پر چھوڑی گئی تھیں۔
2018 کے بعد سے بنگلا دیش کی سرکاری ملازمتوں میں کوئی کوٹا نہیں تھا۔ 2021 میں چند افراد ہائی کورٹ پہنچے اور 30 فی صد کوٹا بحال کرنے کی استدعا کی۔ یکم جولائی کو کوٹا بحال کیے جانے پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور کوٹا معطل کروایا۔ ملک کے چیف جسٹس نے طلبہ سے کہا کہ وہ احتجاج ختم کرکے دوبارہ کلاسیں اٹینڈ کریں۔ اس کے باوجود احتجاج جاری رہا ہے۔
پیر کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاجی طلبہ اور حکمراں عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ کے کارکنوں میں تصادم میں 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے۔ رات بھر میں پُرتشد واقعات ڈھاکہ کے نواحی علاقے ساور میں واقع جہانگیر نگر یونیورسٹی تک پھیل گئے۔ چٹوگرام (چٹا گانگ، چاٹگام) اور رنگ پور بھی ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آگئے۔ سیاسی امور کے بنگلا دیشی ماہر اور ناروے کی اوسلو یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچر مبشر حسن کہتے ہیں کہ طلبہ کا احتجاج اب ملک گیر ہے۔ حکمراں عوامی لیگ اور اُس کا اسٹوڈنٹ ونگ (چھاترا لیگ) احتجاجی تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں اور اُن کے اسٹوڈنٹ ونگ احتجاجی طلبہ کے ساتھ ہیں۔ بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں طلبہ تحریک کا ساتھ دے کر عوام میں اپنی جڑیں گہری اور مضبوط کر رہی ہیں۔ پُرامن مظاہرین پر چھاترا لیگ کے کارکنوں کے تشدد نے معاملات کو بگاڑا۔ مبشر حسن کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حکومت کا دامن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صریح عوام دشمن اقدامات سے داغدار ہے۔
بنگلا دیشی سوشل میڈیا پر شیخ حسینہ کے خلاف میمز، ویڈیوز، پوسٹس عام ہوتی جارہی ہیں۔ چند ماہ پہلے تک ایسا سوچنا بھی محال تھا۔ شیخ حسینہ واجد کو کھل کر ڈکٹیٹر کہا جارہا ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت خوف کی بنیاد پر قائم تھی۔ اب خوف جاچکا ہے۔ طلبہ انتخابی دھاندلیوں کا سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ جنوری 2024 میں شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار وزیر ِاعظم بنیں۔ مبصرین نے کہا انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
سینئر بنگلا دیشی صحافی سودیش رائے کہتے ہیں کہ حکومت طلبہ سے شائستگی سے بات کرے، اُنہیں یقین دلائے کہ کوٹا کسی طور بحال نہ ہوگا۔ حکومت بھی تشدد پر تُلی رہے گی تو معاملات مزید بگڑیں گے۔ بات چیت جلد از جلد شروع کی جانی چاہیے۔ مبشر حسن کہتے ہیں کہ حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ معاملات اُس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ڈیڑھ عشرے میں حکومت کے خلاف اِتنا بھرپور احتجاج پہلے نہیں ہوا۔ طلبہ روزگار کے محدود مواقع پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت کو اُن کی بات سُننی چاہیے۔ بنگلا دیش میں ہر سال 4 لاکھ نوجوان گریجویشن کرتے ہیں جبکہ اُن کے لیے صرف 3 ہزار سرکاری ملازمتیں ہوتی ہیں۔ معیشت ڈھنگ سے کام نہیں کر رہی اور کرپشن بھی بہت زیادہ ہے۔ بیش تر بنگلا دیشی خود کو محروم تصور کر رہے ہیں۔ عام بنگلا دیشی سمجھتا ہے کہ ایسے خراب حالات میں صرف سرکاری نوکری ہی ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ طلبہ معاشرے کی مجموعی محرومیوں کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔
(انڈیا ٹوڈے کا تجزیہ)