ماہِ محرم اور ہم

152

ماہِ محرم اپنے ساتھ کئی پیغام اور بہت سی یادیں لیے طلوع ہوتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی مدینہ ہجرت کے سارے مراحل ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ یکم محرم کو اس عظیم ہستی کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں کہ جن کے قبول اسلام کے لیے خود آپؐ دْعاگو رہتے تھے۔ جن کی کئی آرا کو رب کائنات نے اپنی وحی اور قرآن کریم کی آیات میں بدل دیا۔ 10 محرم نواسۂ رسولؐ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ انھوں نے اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے سر تو کٹوا لیے لیکن اْس اقتدار کی حمایت و تائید نہیں کی جو آپؐ اور خلفاے راشدین کی راہ سے انحراف کرگیا تھا۔ یومِ عاشورا سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے آپؐ نے 10 محرم کو خود بھی روزہ رکھا اور اْمت کو بھی ترغیب دیتے ہوئے اسے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔

آپؐ مدینہ پہنچے تو ایک روز یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ آج 10محرم الحرام ہے اور آج کے دن اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسٰی اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ اور اس کے ظلم سے نجات دی تھی۔ ہم اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی موسٰی سے اظہار وفا و محبت کے لیے مَیں تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور فرمایا کہ زندگی رہی تو یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے آیندہ سال اس کے ساتھ ایک اور دن ملا کر روزہ رکھوں گا (آئیے ہم بھی اپنے حبیب کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے عاشوراء کے دو روزے ضرور رکھیں)۔ سبحان اللہ آپؐ عبادات میں بھی قوم یہود کی مشابہت سے اتنے محتاط و خبردار تھے، لیکن آج ہم اْمتی گناہوں اور اللہ کی نافرمانی میں یہودیوں، ہندوؤں اور تمام باغیانِ رب العالمین کی پیروی کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

شہادت جگر گوشۂ رسولؐ: یہ المیہ اور سانحہ بھی ہماری تاریخ کا بدنما داغ بننا تھا کہ شخصی اقتدار کی خاطر نواسۂ رسولؐ اور ان کے پورے خانوادے سمیت صحابہ کرامؓ کو شہید کردیا گیا۔ سیدنا امام حسینؓ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت جب بھی یاد آئے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر صاحب ِایمان اس پر غمگین ہوتے ہوئے سوچتا ہے کہ نواسۂ رسولؐ کو شہید کرنے والے اپنے نبی کا سامنا کس منہ سے کر پائیں گے! 10 محرم کو نانا اور نواسوں کے مابین شفقت ومحبت کے وہ تمام مناظر بھی نگاہوں میں تازہ ہوجاتے ہیں،جو تمام صحابہ کرامؓ کے لیے راحت ومسرت کا سبب بنا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس تلخ باب سے سبق حاصل کرنے اور مزید ہلاکت وتباہی سے بچنے کے بجاے انھی اختلافات کو مزید ہوا دیتے ہیں کہ جن کا نتیجہ اْمت نبیؐ کی مزید تقسیم اور مزید خوں ریزی ہی میں نکل سکتا ہے۔ انتہائی بدقسمتی ہے کہ شہادت امام حسینؓ کا پورا باب بھی لایعنی خرافات اور خود ساختہ قصہ گوئی کی نذر کر دیا گیا ہے۔

سیدنا امام حسینؓ اور ان سے پہلے امام حسنؓ نے آخری لمحے تک مسلمانوں کے مابین فتنہ واختلاف ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط بھیج بھیج کر بلا نے والے اہل کوفہ بھی جب بے وفائی کا عنوان بن گئے تو آپ نے مدینہ واپس لوٹ جانے سمیت ان کے سامنے وہ تمام ممکنہ صورتیں تجویز کردیں کہ جن کے نتیجے میں قتل وغارت سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن فتنہ جْو عناصر نے ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ ان کی اکلوتی شرط یہ تھی کہ نواسۂ رسولؐ اور دیگر صحابہ کرامؓ آمرانہ اقتدار کی بیعت کرلیں، امام ذی شان نے جسے یکسر مسترد کردیا۔ جامِ شہادت نوش کرلیا لیکن صفحۂ تاریخ پر یہ بھی ثبت کردیا کہ ؎
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد

ماہِ محرم اور آج کی دنیا: ملتے جلتے فتنہ جْو سازشی عناصر کی دسیسہ کاریاں آج بھی اْمت مسلمہ کا جسد چھلنی کر رہی ہیں۔ سوے اتفاق سے امت مسلمہ ایک بار پھر ایسے تلخ ترین صدمے جھیل رہی ہے کہ جن کا نتیجہ ابھی سے واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ سابق صہیونی وزیر دفاع موشے دایان نے 67ء کی جنگ میں عربوں پر حملہ کرنے کی اپنی ساری حکمت عملی ایک صحافی کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ صحافی نے حیرت سے پوچھا یہ تو کوئی خفیہ راز ہونا چاہیے تھی، آپ شائع کروا رہے ہیں؟ اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ’’اول تو عرب پڑھتے ہی نہیں، پڑھ لیں تو سمجھتے نہیں، اور سمجھ ہی لیں تو عمل نہیںکرتے‘‘۔ قطع نظر اس سے کہ دشمن کا یہ استہزائیہ جملہ اپنے اندر کتنی حقیقت رکھتا ہے ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ عالم اسلام کو مزید تقسیم کرنے کا منصوبہ تقریباً ربع صدی سے معلوم ومعروف ہوچکا ہے۔ 1916ء کے معروف عالمی گٹھ جوڑ کے پورے 100سال بعد 2016ء میں ایک تازہ نقشہ خطے پر عملاً مسلط کیا جا رہا ہے۔ عالمی قوتیں اس منصوبے کے مطابق وسیع تر مشرق وسطیٰ، یعنی پاکستان سے ترکی تک اور وسطی ایشیا سے شمال مغربی افریقہ تک کے ممالک کو مزید ٹکڑیوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ تقسیم در تقسیم کا یہ ناپاک منصوبہ اسی صورت حقیقت بنایا جا سکتا ہے کہ ایک رب، ایک نبی، ایک قرآن، ایک قبلہ رکھنے والی اْمت کو مذہب، فرقہ، نسل، زبان اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا جائے۔

ذرا صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت میں شائع شدہ سابق صہیونی وزیر داخلہ جدعون ساعد اور جنرل (ر) جابی سیبونی کے مشترکہ مقالے کا شائع شدہ خلاصہ ملاحظہ فرمائیے جو انھوں صہیونی قومی سلامتی کے ریسرچ سنٹر کے لیے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شمالی عراق اور شام میں ایک نئی کرد ریاست، اس کے مغرب میں علوی، جنوب اور مشرق میں دْرزی اور وسطی علاقے میں سْنّی ریاست کا قیام صہیونی ریاست کی اسٹرے ٹیجک ضرورت ہے‘‘۔ ادھر امریکا کے سابق نائب وزیر خارجہ کا ارشاد ہے کہ ’’یمن کو متعدد چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردینا ہی تنازعے کا سب سے بہتر حل ہے‘‘۔ متعدد اسرائیلی تحقیقی مراکز کی یہ تجاویز اب ایک کھلا راز ہیں کہ گزشتہ صدی کے اوائل میں صہیونی ریاست کے گرد قائم کیے جانے والے ممالک اب تشکیل نو کے محتاج ہیں۔ ان ممالک کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر قائم باہم متصادم مختصر ریاستوں میں بدلنا ہماری ترجیح اول رہنا چاہیے‘‘۔

معروف عبرانی ویب سائٹ ہیڈبروٹ نے حال ہی میں ’خدشہ‘ یا ’اْمید‘ ظاہر کی ہے کہ عنقریب سعودی عرب اور ایران میں خوف ناک جنگ بھڑکنے والی ہے جس میں ایٹمی ہی نہیں کیمائی اور حیاتیاتی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان امریکی تجزیوں، مقالوں اور کتابوں کی اشاعت میں تیزی آگئی ہے جن میں بالخصوص سعودی عرب کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا میں قانون سازی ہو رہی ہے کہ نائن الیون میں مرنے والوں کے ورثا اب سعودی عرب سے بحیثیت ریاست تاوان اور خون بہا کا مطالبہ کر سکیں گے۔ امریکی دانش وَر سارہ چیکس (Chaycs Sarah) اور ایلیکس دوول کی مشترکہ ریسرچ کا عنوان ہی ساری حقیقت بیان کررہا ہے: سعودی مملکت کے خاتمے کی تیاری کر لیجیے۔ معروف امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ نے نائن الیون کے بعد عالم اسلام میں امریکی حکمت عملی کے عنوان سے اپنی سفارشات میں لکھا ہے: ’’امریکا مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو استعمال کرے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق شیعہ سْنّی، جدید و قدیم، اور علاقائی طاقتوں کے نفوذ پر مشتمل جھگڑوں کو بڑھانا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ سفارشات میں ’مدارس کی اصلاح‘ کے نام پر تجویز کیا گیا ہے کہ مغرب اور امریکا کے خلاف پائے جانے والے جذبات پر قابو پانے کے لیے نصاب میں تبدیلی اور مساجد کے سرکاری ائمہ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ 2003ء میں بھی یہی امریکی ادارہ اسلامی تحریکات اور روایتی علماے کرام کے مقابلے میں ’روشن خیال‘ اور ’صوفی‘ اسلام عام کرنے کی تجویز دے چکا ہے۔ بعد میں جناب پرویز مشرف سمیت کئی حکمران انھی الفاظ کی جگالی کرتے رہے۔ قرآن کریم بتا تا ہے کہ: ’’ان کے دل کا بْغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔ ( اٰل عمرٰن: 118)

دشمنوں سے کیا شکوہ… ان سے عداوت کے علاوہ اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حالیہ حج کے موقع پر اعلیٰ ترین شیعہ پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بعد درجنوں شیعہ رہنماؤں کے بیانات دیکھ لیجیے۔ سعودی حکمران خاندان سے لے کر نعوذ باللہ خود حرمِ مکہ کے بارے میں کیا کیا الفاظ اور کارٹون نہیں شائع ہوگئے۔ سعودی عرب کے خلاف انتہائی جذباتی جنگی ترانوں کی بھرمار ہے۔ سعودی مفتی اعظم عبد العزیز آل شیخ نے بھی ترت جواب دیتے ہوئے ان سب کو خارج از اسلام قرار دے دیا۔ حج کوٹے کے لیے ایران و سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات بوجوہ ناکام ہوگئے۔ اگرچہ ایرانی حجاج کی ایک بڑی تعداد عراقی اور شامی دستاویزات پر حج کے لیے آئی، لیکن براہ راست اور غالب اکثریت کی حج میں عدم شرکت کو بھی طرفین نے ایک دوسرے کے خوب لتے لینے کا ذریعہ بنائے رکھا۔

نیا ہجری سال، ہجرت نبیؐ کی یاد، سیرت فاروق و حسینؓ اور یومِ عاشور کی اہمیت ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے اس تباہی سے بچ جانے کی دہائیاں دے رہی ہے۔ اگر ہم شہادتِ امام حسینؓ سے یہ روح و جذبہ حاصل کرلیں کہ اقتدار کو سنت ِ نبویؐ اور خلفاے راشدینؓ کی منہج پر واپس لانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اگر ہم ریاست مدینہ کے قیام و دفاع کی سنت نبوی و فاروقی کی راہ اپنالیں، تو پھر تمام تر آزمایشوں اور تباہی کے باوجود آج کے فرعونوں پر غلبہ یقینی ہوگا۔
’’تم میں سے ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں اقتدار عطا کرے گا‘‘۔ (النور: 55)