اخبار سے ہمارا تعلق کمزور کیوں

208

مجھے یاد ہے جب میں تیسری جماعت میں تھا تو آہستہ آہستہ اخبار پڑھنا سیکھا اور یوں یہ عادت مجھے مختلف رسائل، ڈائجسٹ اور پھر کتابوں کے مطالعے پر لے آئی۔ یہاں یہ بات کرکے میں نہ تو اپنی علمیت کا رعب جما رہا ہوں اور نہ ہی مجھے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ میں کتاب دوست ہوں۔ ایک وقت تھا ہمارے گھر میں تین تین اخبارات آتے تھے۔ جیسے ہی الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا اثر رسوخ بڑھتا گیا تو اب صرف ایک اخبار آتا ہے۔

آج کل الیکٹرونک و سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کی تعداد بے شمار ہے اور اخبارات بھی روزانہ ویب سائٹس پر موجود ہوتے ہیں بلکہ ملک کے کئی بڑے بڑے اخبارات کی تو موبائل ایپلیکشنز بھی آچکی ہیں جن کو پلے اسٹور سے بآسانی ڈائون لوڈ کرکے آپ خبریں پڑھ سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود بہت سارے اخبارات چھپتے بھی ہیں۔ ہاکر روزانہ گھروں کے دروازوں پر اخبار چھوڑ جاتے ہیں۔ بس اسٹاپ اور اس طرح کی دیگر عوامی جگہوں پر اب بھی اخبارات فروخت ہوتے آپ کو نظر آئیں گے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ تعداد اب بہت کم ہے۔ کسی بھی من پسند اخبار کی ہارڈ کاپی پڑھنے کا مزا اور لطف آپ ان سے پوچھیے جن کو اخبار پڑھنے کی لت عہد جوانی سے لگی ہوئی ہے۔

آج کی نوجوان نسل کو دیکھا جائے تو اخبار کا مطالعہ ان کی ترجیحات میں دور دور تک شامل نہیں، آج کے نوجوان خود کو زیادہ تر سوشل میڈیا مصروف رکھتا ہے۔ جانتا ہوں جو خبریں اخبار میں آپ کو ملیں گی ان میں سے کافی آپ تک پہلے ہی پہنچ چکی ہوں گی لیکن اس سب کے باوجود اخبارات کی اہمیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اخبار کا مطالعہ ہمیں سماج سے جوڑے رکھتا ہے، بین الاقوامی اور مقامی حالات سے باخبر رکھتے ہیں ایسی کئی اہم خبریں اور قیمتی باتیں اخبار اور کالموں میں موجود ہوتی ہیں جو اور کہیں سے نہیں ملیں گی اس طرح آپ خود کو اخبار سے دور رکھ کر معلومات کے بہت بڑے ذخیرے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ 25 ستمبر دو ہزار اکیس کو آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی نے اخبار کے مطالعے کے رجحان کو بڑھانے کے لیے ’’نیشنل ریڈنگ نیوز پیپر ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا تھا اس قدم کو تمام ادبی، صحافتی، اور علمی حلقوں میں سراہا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی تاہم اب بھی اس طرح کے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
میر سراج