ساؤتھ چائنا سی میں چینی اور جاپانی عزائم

268

ساؤتھ چائنا سی، وسائل اور تزویراتی اعتبار سے ایک اہم بحری علاقہ ہے جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بین الاقوامی دلچسپی اور سرگرمیوں کا مرکز ہے مزید برآں اس اہم بحری علاقے میں چین کی دلچسپی بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس پر اس کے ہمسایہ ممالک اور عالمی اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے مختلف نوعیت کے ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے جن کا تعلق علاقائی اور عالمی مفادات سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ساؤتھ چائنا سی میں چین کی دلچسپی صدیوں پرانی ہے، جن کا اکثر ذکر ان کی پالیسی دستاویزات اور بیانات میں کیا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم حوالہ 1947 میں چین کی جانب سے متعارف کردہ ’’نائن ڈیش لائن‘‘ کا نقشہ ہے، جس میں تقریباً پورے جنوبی چین کے سمندر پر چین کا دعویٰ ظاہر کیا گیا ہے۔ ماہرین کی رائے کے مطابق اس دستاویز میں فلپائن، ویتنام، ملائیشیا، برونائی، اور تائیوان کے ان علاقوں کو بھی چینی ملکیت میں دکھایا گیا ہے جو اوورلیپنگ مفادات اور پیچیدہ علاقائی تنازعات کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں معترضین کا کہنا ہے کہ ساؤتھ چائنا سی میں چین کی پیش رفت کو اسٹرٹیجک، اقتصادی، اور قوم پرست مقاصد کے تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ بات ایک کھلی حقیقت کی طرح واضح ہے کہ چین اب ایک ایسی قوت بن چکا ہے جو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ چین ان اہم سمندری راستوں کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہا ہے جو اس کی عالمی تجارت کے لیے اہم ہیں۔ تزویراتی ماہرین کی رائے میں اس کے واضح اہداف میں ہائیڈرو کاربنز اور سمندری وسائل کے بڑے ذخائر تک رسائی حاصل کرنا شامل ہے۔ جبکہ چین ساؤتھ چائنا سی میں اپنی فوجی موجودگی کو علاقائی سلامتی اور دفاع سے منسلک سمجھتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب نواز طاقتوں کی جانب سے چین کی مخالفت پر مبنی مواد کی تشہیر بھی کی جارہی ہے۔ چین مخالف بیانیہ یہ ہے کہ چین نے جنوبی سمندر میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں جن میں چٹانوں کو مصنوعی جزیروں میں تبدیل کرنا بھی شامل ہے تاکہ انہیں فوجی انفرا اسٹرکچر سے لیس کیا جا سکے۔ اس بیانیے کے مطابق ان مصنوعی جزیروں پر ریڈار سسٹمز اور دیگر فوجی سہولتوں کی تعمیر بھی کی گئی ہے تاکہ کسی جارحانہ اقدام سے نمٹا جاسکے۔ اس سلسلے میں چینی جہازوں کے سمندری گشت اور بحری اور کوسٹ گارڈ جہازوں کی تعیناتی کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ان اعتراضات کی فہرست میں چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں سفارتی کشیدگی اور کبھی کبھار ہونے والی جھڑپوں کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
چین مخالف طاقتوں کی جانب سے اس بحری علاقے سے متعلق کئی قانونی چیلنجز اور بین الاقوامی قانونی تنازعات کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جن میں 2016 کا وہ عدالتی فیصلہ بھی شامل ہے جس نے چین کے نائن ڈیش لائن دعووں کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اگرچہ چین نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا، لیکن عالمی سطح پر اس فیصلے کو تنازع کا ایک اہم نقطہ بتایا جاتا ہے۔
آئیں اس سلسلے میں جاپانی نقطہ نظر کا جائزہ بھی لے لیا جائے جسے جانے بغیر اس معاملے کو معروضی انداز سے سمجھنا کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔ جاپانی نقطہ نظر کے مطابق وہ ایک ایسی قوم ہے جس کا علاقائی استحکام، آزادی اور مفادات نیوی گیشن سے منسلک ہیں، جاپان چین کی کارروائیوں کو اپنی نگاہ اور اپنے انداز میں دیکھتا ہے۔ جاپان ساؤتھ چائنا سی کے حوالے سے بین الاقوامی قانون خصوصاً اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندری قانون (UNCLOS) کی پاسداری کا حامی ہے۔ اس حوالے سے جاپان بھی علاقائی استحکام اور امن کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور جاپان کی رائے میں امن، اقتصادی اور تجارتی استحکام کے لیے ضروری عوامل ہیں جنہیں ہر صورت بروئے کار لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی جاپان اپنے دفاع کے لیے امریکا کے ساتھ تزویراتی منصوبہ بندی اور مشقوں میں مصروف نظر آتا ہے، جاپان اور امریکا کا یہ تزویراتی اتحاد جاپانی بیانیے کے مطابق علاقائی سلامتی کو یقینی بنائے جانے کے لیے ضروری ہے۔
ماہرین کی رائے میں اس کشیدگی سے مزید فوجی نقل و حرکت، اسلحے کی دوڑ اور باہمی کشیدگی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں جو بین الاقوامی تجارتی راستوں اور اقتصادی استحکام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں یہ تنازع ماحولیاتی مسائل میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے اور اس کے منفی ماحولیاتی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اور ساتھ ہی اس موضوع پر جاری کشیدگی کی وجہ سے جنوبی چین کے سمندر کا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے، جس کے علاقائی اور عالمی استحکام پر بھی اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس خطے میں کسی تیسری قوت کی دخل اندازی کے بغیر چین اور جاپان کے درمیان مکالمہ ہونے کی ضرورت ہے جو مستقبل کے پائیدار امن کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔