تسلیم ور ضا کے معنی ہیں: ’’اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کردینا، اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا، اپنی انا کو اس کی رضا میں فنا کر دینا، اسی کو فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی معنویت کو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے:
’’اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے‘‘، (بقرہ: 207) ’’بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں، اللہ کا اس پر تورات، انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے، سو تم نے جو اللہ سے سودا کیا ہے، اس پر خوشی مناؤ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (توبہ: 111)
اللہ تعالیٰ کے محبوب ومقرّب بندوں کو آزمائش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، نبی کریم ؐ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ! سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے، آپ ؐ نے فرمایا: سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے، پھر اُن کی جو مرتبے میں اُن سے قریب تر ہیں اور پھر حسبِ مراتب‘‘، (ترمذی) الغرض ’’جن کے رتبے ہیں سوا، اُن کو سوا مشکل ہے‘‘۔ اسی سنتِ الٰہیہ کے تحت سیدنا ابراہیمؑ کو بھی آزمائش کے کڑے مرحلے سے گزرنا پڑا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اور جب ابراہیم کو ان کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا، تو وہ اس آزمائش پر پورے اترے، اللہ نے فرمایا: میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں‘‘۔ (بقرہ: 124) پھر اللہ تعالیٰ نے حضراتِ ابراہیم واسماعیلؑ کی آزمائش کے مختلف مراحل میں سے ایک کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’سو جب (باپ بیٹا) دونوں نے (اللہ کے حکم پر) سرِ تسلیم خم کردیا اور باپ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا، تو ہم نے اُسے پکارا: اے ابراہیم! بے شک آپ نے اپنا خواب سچا کردکھایا اور بے شک ہم نکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں، بے شک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی‘‘۔ (الصّٰفّٰت: 103-106)
اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو امتحان میں پورا اترنے پر اس اعزاز سے نوازا: ’’بے شک ابراہیم (اپنی ذات میں) اللہ تعالیٰ کی ایک اطاعت گزار امت تھے، باطل سے ہٹ کر حق پر قائم رہنے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے، اُس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، (اللہ نے) انہیں چن لیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی‘‘۔ (النحل: 120-121)
تسلیم ورضا کا یہ شِعار سیدنا ابراہیمؑ سے شروع ہوا اور سیدناِ اسماعیلؑ کے توسط سے رحمۃللعالمین سیدنا محمد رسول اللہؐ تک پہنچا۔ غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کی شدید تیر اندازی کے سبب جب وقتی طور پر مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے تو رسول اللہ ؐ تنہا میدان میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور فرمایا: ’’میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں‘‘۔ رسول اللہ ؐ سے اللہ کی راہ میں عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کی یہ وراثت آپ کے اہلِ بیتِ اطہار کو منتقل ہوئی اور میدانِ کربلا میں سیدنا حسینؓ اور ان کے اہلِ بیتِ اطہار و اعوان و انصار ؓ کے ذریعے یہ روایت اپنی معراج کو پہنچی، علامہ اقبال نے کہا تھا:
غریب و سادہ ورنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرّب بندے سراپا تسلیم و رضا ہوتے ہیں، وہ اللہ کی قضا و قدر پر شاکی نہیں ہوتے بلکہ راضی رہتے ہیں۔ امیر المؤمنین سیدنا علی ؓ جب بھی عبدالرحمن بن ملجم کو دیکھتے تو اس کی نشاندہی اپنے قاتل کے طور پر کرتے، آپ ؓ سے عرض کیا گیا: ’’آپ اس کو قتل کیوں نہیں کرتے‘‘، اس پر سیدنا علیؓ نے فرمایا: ’’میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کردوں‘‘۔ (الفخری فی آداب السلطانیہ) اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی ؓ کو اپنی شہادت کا علم تھا، چنانچہ ایک موقع پر رسول اللہ ؐ نے سیدنا علیؓ کے جسم پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تو فرمایا: ’’اے ابوتراب! میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتادوں، سیدنا علیؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ضرور بتائیے، آپ ؐ نے فرمایا: (ایک )قومِ ثمود کا أُحَیْمِرُہے، جس نے (سیدنا صالحؑ کی) ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اے علی! (دوسرا) وہ شخص ہوگا جو تمہارے سر پر ضرب لگائے گا اور خون سے تمہارے جبڑے تک تر ہوجائے گا‘‘۔ (مسند احمد)
یہ تمام حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا علی ؓ کو اپنی شہادت کا علم تھا اور شاید قاتل کا بھی علم تھا، اسی لیے انہوں نے اپنے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا، بلکہ برضا ورغبت شہادت کے لیے تیار رہے۔ یہی صورتِ حال امامِ عالی مقام حسین ؓ کی بھی تھی کہ شہادت کی منزل انہیں آفتاب نصف النہار کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آرہی تھی، لیکن آپ کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کے لیے آپ تیار رہے۔ شبِ عاشورکو انتہائی فصیح وبلیغ کلمات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ’’جو آج کی شب اپنے خاندان والوں کے پاس جانا چاہتا ہے تو میں اسے اجازت دیتا ہوں، تم پر رات کی ظلمت چھاچکی ہے، تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور رات کی تاریکی میں اپنے خاندانوں کی طرف نکل جائے، اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے، قوم کو صرف میرا خون چاہیے، جب وہ مجھے شہید کردیں گے تو ان کی پیاس بجھ جائے گی، کسی اور سے انہیں کیا غرض‘‘۔ آپ کے اہلبیت کے مردوں نے کہا: ’’آپ کے بعد جینے میں کوئی مزا نہیں ہے، لوگ کہیں گے: تم نے اپنے بزرگوار، اپنے سردار، اپنے چچازاد اور بہترین چچا کو تنہا چھوڑ دیا، تم نے ان کی مدافعت میں ایک تیر اور ایک نیزہ بھی نہ چلایا، دنیاوی زندگی کی خاطر تم نے تلوار تک نہ چلائی۔ واللہ! ہم آپ پر اپنی جانوں، اپنے مالوں اور اپنے اہل وعیال کو قربان کردیں گے اور آخری سانس تک آپ کی مدافعت میں لڑیں گے، آپ کے بعد جینے کا کیا مزا ‘‘۔
الغرض وہ سب کوہِ استقامت تھے، موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپ کا ساتھ نہ چھوڑا، مقامِ تسلیم ورضا اسی کا نام ہے کہ انسان جب دنیاوی نفع ونقصان سے ماورا ہوکر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنالیتا ہے، تو اُس کے لیے جان کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
برتراز اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی
صبحِ عاشور آپ نے اتمامِ حجت کے لیے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا: کیا مجھ جیسی شخصیت کو قتل کرنا تمہیں گوارا ہے، میں تمہارے نبی کا نواسا ہوں اور آج میرے سوا اللہ کی زمین پر کسی نبی کا کوئی نواسا موجود نہیں ہے، علی میرے باپ ہیں، جعفرِطیار میرے چچا ہیں، سید الشہداء حمزہ میرے والد کے چچا ہیں، میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا: ’’یہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں، میرا مقام جاننا ہو تو اصحابِ رسول سے پوچھو‘‘۔ لیکن ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی اور ان کے مقدر میں شقاوت تھی۔
شعارِ تسلیم ورضا کو سیدنا حسین ؓ نے میدانِ کربلا میں اُس معراج تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی۔ اللہ کی راہ میں ایثار وقربانی کا کوئی ایسا عنوان باقی نہ رہا جسے آپ نے اپنی نسبت سے مُشرَّف نہ کیا ہو۔ اس سے پہلے جب آپ مدینۂ منورہ سے عازمِ سفر ہوئے تو جلیل القدر صحابہ عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید خدری وغیرہم نے آپ کو اس سفر سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، اہلِ کوفہ کی جفا کا بھی حوالہ دیا، لیکن آپ اپنے عزم پر قائم رہے۔ اس کاسبب یہ تھا کہ اہلِ کوفہ نے بڑی تعداد میں خطوط بھیج کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اور امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے آپ کی بیعت کا وعدہ کیا تھا۔ آپ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ؐ سے نسبتِ قرابت، سیدنا علی ؓ کا فرزند اور سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کا لختِ جگر ہونے اور علم، ورَع وتقویٰ کے سبب آپ خلافت کے سب سے زیادہ اہل ہیں۔ چنانچہ آپ عمرہ ادا کرنے کے بعد منازلِ سفر طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے اور محرم الحرام 61ھ کے یومِ عاشور کو جب کوفے کی مساجد سے اذانِ جمعہ کی آوازیں بلند ہورہی تھیں، شقی القلب لوگ تقریباً اُسی وقت نواسۂ رسول کی گردن پر خنجر چلارہے تھے۔ یہ منظر کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے، لیکن امت کی بدنصیبی کہ بظاہر یہ ناممکن فعل واقع ہوا اور آج تک اس پر تمام اہلِ ایمان اور محبانِ رسول ؐ ومحبانِ اہلِ بیتِ رنجیدہ ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ محبتِ حسین کے دعوے دار تو بہت ہیں، سب اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں، ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں، مجالس بھی منعقدکرتے ہیں، مگر اُن کی اَقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم یاب بلکہ نایاب ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ وفرات
قافلۂ حجاز میں، ایک حسین بھی نہیں