رمی جما ِر کس واقعے کی یادگار ہے؟

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
سوال: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’خطبات‘ میں لکھا ہے: ’’دن نکلتا ہے تو (حاجی) منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری کی جاتی ہے جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں‘‘۔ (ص: 251)

آگے مزید لکھا ہے: ’’دوسرے دن (حاجی) پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے، پھر چاند ماری کرتا ہے جن کوجمرات کہتے ہیں اور جو دراصل اس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اور تباہی کی یادگار میں جو رسول اللہؐ کی پیدائش کے سال عین حج کے مواقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کرتباہ کردیا تھا‘‘۔ (ص: 251-252)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج میں رمی جمرات یعنی کنکریاں مارنا ہاتھی والی فوج کی پسپائی کی یادگار ہے، جب کہ عام طور پر کنکریاں مارنے کو سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی سنت بتایا جاتا ہے۔
برائے کرم اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں۔

جواب: یہ بات کہ حج میں رمی جمار ابرہہ کی فوج کی پسپائی اور ہلاکت کی یادگار ہے، اصلاً پہلے مولانا حمید الدین فراہیؒ نے اپنی کتاب ’تفسیر سورۂ فیل‘ میں لکھی تھی، ان کی متابعت میں مولانا مودودیؒ نے بھی اسے قبول کرلیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی رائے کے حق میں دلائل نہیںدیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا موقع نہ تھا کہ وہ عوام کے درمیان عام فہم انداز میں جمعہ کے خطبے دیا کرتے تھے، البتہ مولانا فراہیؒ نے اپنی رائے کو مدلّل کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ ان کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔مولانا فراہیؒ کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ’’کلامِ جاہلیت میں دیگر مناسکِ حج کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن رمی جمار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی چیز ہے، جو واقعۂ فیل کے بعد وجود میں آئی ہے‘‘۔ لیکن یہ دلیل صحیح نہیں، اس لیے کہ جاہلی شعرا کے کلام میں رمی جمار کا ذکر موجود ہے اور مؤرخین نے بھی صراحت کی ہے کہ اہلِ عرب عہدِ جاہلیت میں رمی جمرات کرتے تھے (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے راقم کا مقالہ بہ عنوان ’مناسکِ حج کی تاریخ شائع‘ شدہ ماہ نامہ حیات نو، اعظم گڑھ، مئی تا جولائی 1987ء) مولانا فراہیؒ نے اور بھی دلیلیں دی ہیں، لیکن وہ بھی اشکالات سے خالی نہیں ہیں۔

مولانا مودودیؒ کی کتاب ’خطبات‘ میں، جہاں مولانا کی رائے مذکور ہے، وہیں حاشیہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے: ’’عام طور پر مشہور یہ ہے کہ کنکریاں مارنے کا یہ فعل اس واقعے کی یادگار میں کیا جاتا ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پیش آیا تھا، یعنی سیدنا اسماعیلؑ کی قربانی دیتے وقت شیطان نے آکر آپ کو بہکایا تھا اور آپ نے اسے کنکریاں ماری تھیں، یا جب سیدنا اسماعیلؑ کے فدیے میں مینڈھا آپ کو قربانی کے لیے دیا گیا تو وہ نکل کر بھاگا تھا اور اس کو آپ نے کنکریاں ماری تھیں۔ لیکن کسی صحیح حدیث میں نبیؐ سے یہ روایت نہیں ہے کہ رمی جمار کی علّت یہ ہے‘‘۔ (ص: 252)
یہ بات صحیح ہے کہ کسی صحیح حدیث میں صراحت نہیںہے کہ رمی جمار سیدنا ابراہیمؑ کے واقعے کی یادگار ہے۔ لیکن متعدد روایات اور آثار صحابہ سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ مثلاً سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے یہ قول مروی ہے: ’’تم شیطان کو رجم کرتے ہو اور اپنے باپ ابراہیم کی ملت کی اتباع کرتے ہو‘‘۔ یہ روایت مستدرک حاکم، السنن الکبریٰ للبیہقی اور شعب الایمان للبیہقی میں مروی ہے اور اس کی سند کو ’جید‘ (قابل قبول ) قرار دیا گیا ہے۔

بہرِ حال رمی جمار کی تاریخ کے سلسلے میں یہ دو رائیں ہیں۔ دونوں قطعی نہیں، بلکہ استنباطی ہیں۔ ان میںسے کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ کے
رسولؐ نے حجۃ الوداع میں رمی جمارکیا ہے، اسی لیے
ہم بھی کرتے ہیں۔