پشاور(آئی این پی )ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام شوریٰ ہمدرد پشاور کا ماہانہ اجلاس گزشتہ روز سروسز کلب پشاور صدرمیں منعقد ہوا ، جس کی صدارت اسپیکر شوریٰ ہمدردپروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور خان نے کی ، مہمان مقرر ماہر معاشیات ،یونیورسٹی آف پشاور ڈاکٹر فہیم نواز تھے۔ اجلاس کا موضوع تھا’’بجٹ 2024-25ء کیا تمام شعبوں سے انصاف کیاگیا؟‘‘ڈاکٹر فہیم نوازنے اپنے کلیدی خطاب میںبجٹ کی خوبیوں اور خامیوںپرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میںموجودہ اخراجات کیلئے 17.2 کھرب اور ترقیاتی اخراجات کیلئے صرف1.6 کھرب روپے مختص کئے گئے،جس کا52 فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا،اسی طرح عوام سے 13 کھرب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔حکومت کو بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے کہا کہ بجٹ میں جہاں غریب طبقے پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں اشرافیہ کوبھی پہلی بار ٹارگٹ کیا گیا ہے،پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے،ملکی ترقی کے لئے معاشی استحکام ناگزیر ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ریئل سٹیٹ، ریٹیل سیکٹر اور ایگری کلچرپر ٹیکس زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔اراکین شوریٰ سید مشتاق حسین بخاری، قاری شاہد اعظم، پروفیسر حامد محمود، ڈاکٹر اقبال خلیل، حاجی غلام مصطفی، عبدالحکیم کنڈی، ڈاکٹر سیما شفیع اور غزالہ یوسف نے بجٹ کے فوائد اور نقصانات کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ 24 کروڑ عوام میں سے صرف 30 لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ، بجٹ میںٹیکس کی مد میں پہلی بار مالدار طبقے کو ٹارگٹ کیاگیا جو کہ خوش آئند اقدام ہے جبکہ دوسری جانب بجٹ میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسیشن میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی، پشاور میںٹیکسوں، بجلی ٹیرف، گیس ٹیرف کی وجہ سے 50 فیصد کارخانے بند ہیں، کارخانے بند ہونے کی وجہ سے نہ روزگار ملے گا، نہ حکومت کو ٹیکس ملے گا، ایک اور بڑا مسئلہ ٹیکس چوری کا بھی ہے، ٹیکس چوری میں اضافہ ہو گا،دنیا میں سب سے بڑی آمدن برآمدات سے ہوتی ہے،ہم انڈسٹریز اور برآمدات کو ختم کر دینگے تو پھر ہم کس طرح ترقی کریں گے،اُنہوں نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کے لئے خاطر خواہ فنڈز مختص نہیں کئے گئے ،جو کہ اس شعبے کے ساتھ زیادتی ہے حالانکہ ترقیافتہ قومیں تعلیم پر خرچ کر کے ترقی کرتی ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ ہمارے ٹیکس کے نظام کو سخت کر دیا گیا ہے، لوگ نظام کی سختی کی وجہ سے ٹیکس نہیں دیتے، ٹیکسوں کے بجائے ٹیکس فری کارخانے دیے جائیں، کارخانوں کو کھولا جائے، تا کہ لوگوں کو روزگار ملے، جرائم کم ہوں۔