شمالی کوریا اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات

293

مندرجہ ذیل مضمون معروف تجزیہ نگار کموشیتا کے تجزیاتی مضمون “North Korea and Russia: Implications for Japan’s Security” سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ مضمون جاپان کے معروف روزنامے The Japan Times کی 15 مئی 2024 کی اشاعت میں شامل کیا گیا تھا۔ مضمون میں شمالی کوریا اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے جاپان اور علاقائی سلامتی پر اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس تجزیے کو من وعن پیش کرنے کے بجائے کوشش کی گئی ہے کہ قارئین کو اس کے چند اور پہلوؤں سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
کموشیتا جاپان کے معروف ماہر تجزیہ کار اور محقق ہیں جو بین الاقوامی تعلقات، علاقائی سلامتی، اور خاص طور پر شمالی کوریا اور روس کے امور پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں متعدد قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں، جن کی بدولت وہ جاپان اور دنیا بھر میں ایک معتبر آواز سمجھے جاتے ہیں۔ کموشیتا نے اعلیٰ تعلیم ٹوکیو یونیورسٹی سے حاصل کی، جہاں سے انہوں نے بین الاقوامی تعلقات اور سیکورٹی اسٹڈیز میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی تحقیق کا مرکز بین الاقوامی سیاست، جنگی حکمت عملی، اور ایشیا پیسیفک کے خطے میں سلامتی کے مسائل رہے ہیں۔
کموشیتا نے مختلف جاپانی اور بین الاقوامی تھنک ٹینکس اور تحقیقی اداروں میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وہ کئی سال تک جاپان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (JIIA) کے سینئر فیلو رہے، جہاں انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام، روس کی فوجی حکمت عملی، اور ایشیا پیسیفک کی سلامتی کے حوالے سے گہرے تجزیے پیش کیے۔ ان کے تحقیقی مقالات اور تجزیاتی رپورٹیں بین الاقوامی سطح پر شائع ہوتی رہی ہیں۔ زیر نظر مضمون کے لیے کموشیتا کے تجزیات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ان کی بصیرت اور تحقیق شمالی کوریا اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے خطرات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور جاپان کے لیے ممکنہ حکمت عملیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کی ماہرانہ رائے اور تجزیے جاپان اور عالمی برادری کو موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
شمالی کوریا اور روس کے حالیہ بڑھتے ہوئے تعلقات نے بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی جہت پیدا کر دی ہے، خصوصاً ماسکو کی جانب سے یوکرین پر یلغار کے تناظر میں بیانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو مختلف جانب سے آرہا ہے۔ شمالی کوریا 9 ستمبر 1948 کو سوویت یونین کے تعاون سے معرض وجود میں آیا تھا۔ ماضی کا سوویت یونین اور آج کا روس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے، ان مستقل اراکین میں برطانیہ، چین، فرانس اور امریکا بھی شامل ہیں۔ روس نے اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رواں سال اپریل میں ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے شمالی کوریا پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والے آزاد ماہرین کے پینل کی سرگرمیوں کی تجدید کو ختم کروا دیا۔
کموشیتا نے اپنے تجزیے میں اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ شمالی کوریا یوکرین کے میدان جنگ میں استعمال ہونے والے میزائلوں سے ڈیٹا حاصل کر رہا ہے، جسے پیانگ یانگ ہتھیاروں کے کاروبار کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں ہتھیاروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کام میں لا سکتا ہے۔ کموشیتا کی رائے میں ’’یہ ڈیٹا شمالی کوریا کو مستقبل میں ایسے میزائل تیار کرنے میں بھی مدد دے سکتا ہے جن کے ذریعے جاپان اور امریکا کے دفاعی نظاموں کو چکما دیا جا سکے، اگر ایسا ہوا تو یہ عمل علاقائی امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے‘‘، کموشیتا کے مطابق اس مسئلے میں بیجنگ کی شمولیت بہت اہم ہے، چین شمالی کوریا سے بہت قریب اور اس پر اثر رسوخ رکھنے والا حلیف ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین شمالی کوریا اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوش نہیں ہے، کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ماسکو کا پیانگ یانگ کے ساتھ بڑھتا ہوا تعلق بیجنگ کے شمالی کوریا پر اثر کو کمزور کر سکتا ہے۔
کمو شیتا کے مطابق چین کی یہ خفگی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ چین طویل عرصے سے شمالی کوریا کا سب سے بڑا حلیف اور اقتصادی مددگار رہا ہے۔ بیجنگ شمالی کوریا کو اپنی جغرافیائی پوزیشن کے باعث ایک اہم تزویراتی اثاثہ سمجھتا ہے، جو جنوبی کوریا اور جاپان کے قریب واقع ہے۔ روس کے ساتھ شمالی کوریا کے بڑھتے تعلقات، چین کی اس علاقائی برتری کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ چین کو خدشہ ہے کہ شمالی کوریا روس کے قریب ہو کر اس کی اقتصادی اور تزویراتی معاونت کو کمزور کر سکتا ہے، جو کہ بیجنگ کے مفادات کے خلاف ہے۔
کموشیتا کے مطابق روس اور شمالی کوریا ممکنہ طور پر اپنی قریبی تعلقات کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاکہ امریکا کے ساتھ مذاکراتی طاقت کو بڑھایا جا سکے، خاص طور پر اگر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر کے آئندہ صدارتی انتخابات میں جیت جائیں۔ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور اقتدار (2017-2021) کے دوران، پیوٹن اور کم کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کی۔ 2018 میں، ٹرمپ اور کم نے پہلی بار امریکا، شمالی کوریا سربراہ اجلاس منعقد کیا، حالانکہ ان کی بات چیت آخرکار ناکام ہو گئی۔
جاپان کو شمالی کوریا اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر اپنی سیکورٹی پالیسیوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جی 7 اور دیگر ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر ایک مضبوط نگرانی کا نظام قائم کرنے اور چین پر علاقائی سیکورٹی کی ذمے داری نبھانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی امن اور استحکام کے لیے یہ اقدام نہایت اہم ہیں۔