اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشریٰ بی بی آڈیو لیکس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت 6 ہفتے میں بتائے کہ کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی اور لیک کرنے کا ذمے دار ہے؟ تقریباً 40 لاکھ موبائل صارفین کی کال اور ایس ایم ایس تک رسائی ہورہی ہے، موبائل کمپنیوں نے جو رسائی کا سسٹم دے رکھا ہے بادی النظر میں قانوناً درست نہیں، عدالت نے 6 ہفتے کی مہلت دی تو خود بدلتے نہیں قانون بدل دیتے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی کے مفاد میں کسی جرم کے خدشے کے پیش نظر ایک حساس ادارے کے نامزد افسر یا ایک سے زائد افسروں کو کسی کال یا پیغام میں مداخلت یا کال کو ٹریس کرنے کا اختیار دینے کی منظوری دے دی۔ منظوری ایک سمری کی شکل میں دی گئی اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق ایجنسی جس افسر یا افسروں کو نامزد کرے گی وہ گریڈ 18 سے کم درجہ کے نہیں ہوں گے۔ کابینہ نے نامزدگی کا اختیار پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 1996 کی دفعہ 54 کے تحت دیا، یوں عدالتی باز پرس کا قصہ تمام کرنے کا قدم اٹھا ڈالا۔ اس پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے سوال اٹھایا کہ انسان کی پرائیویسی میں اداروں کو مداخلت کی اجازت کہاں کا انصاف ہے؟ جس کی جمہوریت کے چمپئن کہلانے والے اجازت دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس اجازت نامے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر ڈالا اور کہا کہ ایس آر او وہ آلہ ہوگا جسے آئی ایس آئی تمام سیاست دانوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو بلیک میل اور مغلوب کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔
پاکستان قرار داد مقاصد دستور کا حصہ بنائے جانے کے بعد مشرف بہ اسلام ریاست کا درجہ رکھتی ہے سو وہ پابند ہے۔ شریعت کہتی ہے کہ کسی بھی بات کا تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹائو کہ ان کی اس زمرے میں کیا احکامات ہیں۔ اللہ پاک نے سورۃ الحجرات میں کھول کر بتادیا کہ ایک دوسرے کے ٹوہ میں نہ لگے رہو، تو فرمان رسولؐ بھی ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا تجسس نہ کرو اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو (بخاری) یوں ہی امیر معاویہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی ٹوہ میں لگے رہو گے تو انہیں خراب کردو گے۔ ایک اور حدیث میں عبداللہ بن عمرؓ آپؐ سے روایت فرماتے ہیں کہ جو شخص مسلمانوں کی چھپی باتوں کی کرید میں رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی چھپی ہوئی باتوں کی کرید کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اُسے رسوا کردیتا ہے، اگر وہ گھر ہی میں بیٹھا کیوں نہ ہو (واقعی ایسا کچھ ہو بھی رہا ہے)
علم کے دروازے سیدنا علی کرم اللہ نے اپنے دور اقتدار میں مصر کے گورنر مالک اشتر کو جو ہدایت نامہ جاری کیا اس میں فرمایا تجسس کس میں نہیں ہوتا؟ حاکم کا کام یہ ہے کہ وہ اس سے دور رہے جو برائی ڈھکی اور چھپی ہے اسے کھولے نہیں۔ سید ابواعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں فرماتے ہیں۔ یعنی لوگوں کے راز نہ ٹٹولو، ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو، دوسروں کے حالات اور معاملات کی ٹوہ نہ لگاتے پھرو، یہ حرکت خواہ بدگمانی کی بنا پر کی جائے یا بدنیتی سے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر کی جائے یا محض اپنا استعجاب دور کرنے کے لیے کی جائے ہر حال میں شرعاً منع ہے۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں کہ دوسروں کے جن حالات پر پردہ پڑا ہو وہ اس کی کھوج اور کرید کرے اور پردے کے پیچھے جھانک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ کس میں کیا عیب اور کون سی کمزوریاں چھپی ہوئی ہیں۔ لوگوں کے خطوط پڑھنا، دو آدمیوں کی باتیں کان لگا کر سننا، ہمسایوں کے گھروں میں جھانکنا، مختلف طریقوں سے خانگی یا ذاتی معاملات کی ٹٹول کرنا ایک بڑی بداخلاقی ہے۔ جس سے طرح طرح کے فسادات برپا ہوتے ہیں۔ مفسر اعظم ترجمان قرآن سیدنا عبداللہ عباس کی تفسیر ابن عباس میں رقم ہے کہ نہ اس چیز کی تحقیق کرو جس کی حق تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمادی۔ مفسر قرآن ڈاکٹر محمد لقمان سلفی پی ایچ ڈی حدیث نبوی اپنی تفسیر تیسرالرحمن لبیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ اسلام تجسس سے منع کرتا ہے کہ خواہ مخواہ کرید کرید کر عیبوں کو تلاش کرے جس پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسلام نے جستجو سے منع نہیں کیا۔ تجسس ہمیشہ برائی اور عیب جوئی کے لیے ہوتا ہے۔ احمد رضا خان بریلوی اپنی تفسیر کنیز الایمان کے ترجمہ قرآن میں کہتے ہیں مسلمانوں کے چھپے حال کی تلاش میں نہ رہو جسے اللہ نے اپنی ستاری سے چھپایا ہے۔
اللہ پاک نے تجسس کو حرام قرار دیا ہے، آپؐ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے تو پھر اس میں خیر و برکت بھلا کب ہوگی، یہ خسارے کا سودا ہے، شریعت کی کسوٹی اس کو کھوٹی قرار دیتی ہے۔ جو شریعت میں ہے وہ ہی راہ نجات ہے، ہم نیک و بد جناب کو بتائے جاتے ہیں۔