’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘

412

دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا ماحول گرم ہے اور یوں لگتا ہے کہ بھارت نے ماضی کی سوویت امریکا سرد جنگ کی طرح اس بار بھی دو کشتیوں کی کامیاب سواری کا راستہ چن لیا ہے۔ امریکا تو نائن الیون کے بعد ہی سے بھارت پر مہربان ہے اور بھارت کی عالمی اور علاقائی مشکلات کو حل کرنے میں پیش پیش ہے۔ اب بھارت روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی گرم جوشی پر اس تعلق کی گرد جمنے نہیں دے رہا۔ بھارت بہت کامیابی کے ساتھ مغرب کو شیشے میں اُتارنے کے بعد روس کے ساتھ اپنے تعلقات کی تجدید کر رہا ہے۔ نریندر مودی کا حالیہ دورۂ ماسکو اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ نریندر مودی نے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ماسکو کا دو روزہ دورہ کیا جہاں روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے ان کا استقبال کیا اور انہیں روس کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ’’آرڈر آف سینٹ انڈریو اپوسٹل‘‘ سے نوازا گیا۔ زار پیٹر کے زمانے میں 1698میں یہ ایوارڈ سیدنا عیسیٰؑ کے پہلے حواری کے سینٹ انڈریو کے نام پر جاری کیا گیا ہے۔ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے مودی نے اسے ہندوستان کے عوام اور ہندوستان اور روس کی دوستی کے روایتی رشتوں کے نام کیا۔ نریندرمودی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی اسٹرٹیجک شراکت پائی جاتی ہے۔ یہ اعزاز میرا نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک سو چالیس ملین عوام کا ہے۔ اس سے پہلے روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے دفتر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مغربی ممالک نریندر مودی کے اس دورے سے حسد کر رہے ہیں۔

دورے کے دوران وفود کی سطح پر ملاقاتوں کے علاوہ پیوٹن اور مودی کے درمیان تنہائی میں بھی ملاقات ہوئی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی کی وزارت عظمیٰ کے دوران صدر پیوٹن سے یہ ان کی سولہویں ملاقات ہے۔ یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد یہ نریندر مودی کا پہلا دورۂ روس ہے۔ مودی نے 2019 میں روس کا جبکہ پیوٹن نے 2021 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر بنانے کے عہدو پیماں ہوئے۔ اس مرحلے پر نریندر مودی نے غیرجانبداری کا سا تاثر قائم کرنے کے لیے یوکرین کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک اسپتال میں روسی بمباری سے مرنے والے بچوں کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا۔ نریندر مودی نے کہا کہ معصوم بچوں کی ہلاکت دردناک ہے اور اس مسئلے کا میدان جنگ میں کوئی حل نہیں۔ یوکرینی صدر ولادیمر زلنسکی نے اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیڈر نے خوں خوار مجرم کو گلے لگا لیا۔ یوکرین کے بارے میں ہمدردانہ جذبات کے اظہار کے باوجود مودی نے ابھی تک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی۔ امریکا اور مغربی ملکوں نے جب بھی بھارت پر اس حوالے سے دبائو ڈالا تو مودی نے اس دبائو کو کامیابی کے ساتھ غیر موثر بنا دیا۔ اس طرح امریکا کا اسٹرٹیجک شراکت دار بھارت روس کے ساتھ بھی اپنی پرانی شراکت داری کو کامیابی سے بحال رکھے ہوئے ہے۔

سرد جنگ کے زمانے میں بھی بھارت نے ایک طرف مغرب کی نوازشات کا لطف لیا تھا تو دوسری طرف وہ غیر جانبدار تحریک بنا کر اصل میں سوویت یونین کا حلیف بن بیٹھا تھا۔ اب ایک نئی سردجنگ میں بھی وہ مغرب اور روس دو کشتیوں کی کامیابی کے ساتھ سواری کررہا ہے۔ امریکا اسے اپنے سب سے بہترین اور کارآمد علاقائی اتحادی سمجھتا ہے تو روس اسے اپنا بااعتماد شراکت دار قرار دے کر اسے سب سے بڑی سول اعزاز سے نوازتا ہے۔ یوکرین کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے پر بھارت نے انعام پایا۔ مغرب اس پر بدستور مہربان رہا اور روس سے سستا تیل خرید کرکے بھارت نے اپنی معیشت کو سنبھالا دیا۔ اس کے باوجود بھارت نے روس کی مذمت سے گریز کیا۔ اس کے برعکس یوکرین کی جنگ پاکستان کے استحکام اور کھا گئی۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کو متفقہ فیصلے کے تحت روس روانہ کردیا گیا تو دوسری طرف امریکا کو بھولپن کے انداز میں شکایت لگائی گئی ہمارا وزیر اعظم خودسری کرتے ہوئے روس چلا گیا۔ مغربی ممالک نے پاکستان پر روس کی مذمت کے لیے دبائو ڈالا تو جواب میں وزیر اعظم نے بھارت کا حوالہ دے کر غیر جانبدار رہنے کا عذر پیش کیا تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے آگے بڑھ کر یہ مطالبہ پورا کیا اور ایک سیمینار میں یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کر کے ایک واضح پوزیشن لے لی۔ جس کے بعد سے یہ اندازہ ہوگیا کہ پاکستان نئی سرد جنگ میں عملی طور مغرب کی دُم کے ساتھ لٹکا رہے گا اور زبانی کلامی غیر جانبداری کی پالیسی ہو گی مگر حقیقت میں یہ امریکی مفاد اور مطالبات کے گرد گھومتی رہے گی۔ مغرب نے پاکستان کے لیے جو رول متعین کیا ہے وہ سٹینلے ولبرٹ کی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ میں درج ہے کہ پاکستان کو گھسٹ گھسٹ کر چلنے کی اجازت حاصل رہے گی مگر پر لگا کر اُڑنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسے ایسی آزاد اُڑانوں کی اجازت نہیں ہوگی کہ یہ خود کو مسلم دنیا کا لیڈر بنا کرپیش کرے یا ایسے خواب دیکھنے لگے۔ اس لیے پاکستان میں وقفے وقفے سے آزاد اُڑانوں کے شوقین لیڈر اس خواہش اور شوق کی قیمت چکاتے نظر آتے رہیں گے۔ پاکستان نہ روس سے سستا تیل اور گیس خرید سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان پوری طرح آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر رہ گیا اور آئی ایم ایف نے جس انداز سے چاہا اس کی ہڈی بوٹی نوچ ڈالی۔ یوں یہ بات دیوار پر لکھی ہوئی نظر آتی ہے کہ نئی سرد جنگ میں بھی پاکستان کا مستقبل پرانی سرد جنگ کے ماضی سے چنداں مختلف نہیں ہوگا۔ ڈولتے لڑ کھڑاتے ہوئے چند قدم آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ اسی کیفیت کو منیر نیازی نے یوں بیان کیا تھا

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ