عزتِ مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا فرمان ہے کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دیے بغیر انصاف ممکن ہی نہیں اسلام نے خواتین کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ قرآن کا پہلا لفظ اقراء ہے جو مرد و خواتین میں فرق نہیں کرتا دین میں علم کا حصول عورت اور مرد دونوں پر فرض ہے ہمارے ملک میں خواتین کو وراثت کا حق نہ ملنا ایک افسوس ناک اقدام ہے۔ حالانکہ اسلام میں خواتین کا حصہ واضح ہے۔ قرآن میں خواتین پر الزام لگانے یا بیحرمتی کرنے پر 80 کوڑوں کی سزا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کے بیان سے انکار کی گنجائش ہی نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انصاف فراہم کرنا کس کی ذمے داری ہے؟ بنیادی حقوق کا تحفظ بھی عدلیہ کی ذمے دار ہے اور عدلیہ کو ہر صورت اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے مگر المیہ ہے کہ شاہ ِ عدل بیان بازی فرما رہے ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا سامنا غربت کی گود میں پلنے اور افلاس کی چکی میں پسنے والی خواتین کو کرنا پڑتا ہے اگر کوئی خاتون ہمت کر کے متعلقہ تھانے میں شکایت درج کرا دے تو بڑی حد تک مارپیٹ سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ وارثتی معاملات کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہوتا ہے جو بااثر اور با اختیار ہوتے ہیں وہ خواتین کو وراثتی حقوق سے محروم رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ قرآن پاک سے شادی کرانے کی شرمناک رسم بھی ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔
مسجد سے جوتے چرانے اور دیگر اشیاء کی چوری تو عام ہے اور مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ایسے حافظ ِ قرآن بھی دیکھے ہیں جن سے سود پر رقم لی جاتی ہے اور بچوں کو قرآن حفظ کرانے کے لیے ان کے سپرد کر دیا جاتا ہے سو یہ امر یقینی ہے کہ جب تک ایسے لوگوں سے دوری اختیار نہیں کی جاتی اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ اسلامی نظام کے لیے اسلامی معاشرے کا ہونا ضروری ہے۔
یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ ہم سود سے نفرت کرتے ہیں اس عمل کو خدا اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں مگر اس سے گریز اختیار نہیں کرتے یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ انصاف سے چشم پوشی ایک ایسا جرم ہے جو ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے اور المیہ یہ ہی ہے کہ وطن ِ عزیز میں انصاف کی فراہمی کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انصاف کی فراہمی کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔
عدالتوں پر مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے علاوہ ازیں جعلی مقدمات کی بہتات بھی عدم انصاف کی فراہمی کی وجہ ہے عدالتوں میں موجود 90 فی صد دیوانی مقدمات فریق ثانی کو رسوا کرنا ہوتا ہے اور عدالتیں اْن کی پشت پناہی اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔ ہم ایک عزیز کے مقدمے کے سلسلے میں اپنے ہم کلاس وکیل بھٹی مرحوم سے ملے تھے اور اْن سے گزارش کی تھی کہ یار جتنی جلد ممکن ہو اس مقدمے کا فیصلہ کرادو۔ اْنہوں نے کہا یہ مقدمہ مدعی کے مرنے کے بعد ہی ختم ہوگا کیونکہ اپیل در اپیل کے لعنتی نظام اسے ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرتا رہے گا بدنصیبی یہ بھی ہے کہ انصاف کی باتیں کرنے والے انصاف کی عدم کی فراہمی کے بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
جس قوم کی دانش بنجر ہو جائے اس کی رہنمائی بانجھ ہو جا تی ہے معلوم تاریخ کے مطابق اب تک جو اقوام قہر خدا وند کی زد میں آئی ہیں وہ مذکورہ قہر کی مستحق قرار پائی تھیں۔ موجودہ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوگا کہ من حیث القوم ہم اس قہر کی زد میں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم قہر خداوندی سے کیوں محفوظ ہیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ ربِ کائنات نے رحمت العالمین سے عہد فرمایا تھا کہ اْن کی اْمت پر ایسا عذاب نازل نہیں ہوگا۔
یہ کیسی حیرت انگیز صورتحال ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان فرماتے ہیں کہ بغیر ثبوت کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہیں ہوسکتی دنیا کی تمام عدالتیں اس قانونی نکتہ کا احترام کرتی ہیں مگر وطن ِ عزیز میں قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بروقت انصاف کی فراہمی کی گئی تو وکلا مالی مشکلات میں مبتلا ہوسکتے ہیں یہ ہمارا خیال نہیں محترم جسٹس کاظم ملک کا ارشادِ گرامی ہے۔
باباجی کافی دیر سے بیٹھے آواز پڑنے کے منتظر تھے اْن کا نام تو نہیں پکارا گیا مگر جسٹس صاحب مسند ِ انصاف سے اْٹھ کر اپنے چیمبر میں تشریف لے گئے۔ ریڈر نے بتایا کہ تمہارے مخالف وکیل نے چھٹی کی درخواست دی تھی اس لیے پیشی منسوخ کر دی گئی۔ پوری دنیا میں بزرگ شہریوں کے ساتھ تر جیحی بنیادوں پر سلوک کیاجاتا ہے مگر یہاں عمر نہیں چہرہ دیکھا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ میں 10 سا ل کا عرصہ گزر چکا ہے مگر کسی بھی پیشی پر سماعت نہیں ہوئی اوّل تو مخالف وکیل آتا ہی نہیں اگر آ بھی جائے تو فائل انتظار میں رکھوا دیتا ہے جو بآخر لیفٹ اوور ہوجائی ہے۔