پی ڈی ایم کی حکومت نے جو بجٹ کا عجوبہ پیش کیا ہے وہ اس قدر عجیب ہے کہ خود حکمرانوں کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ ’’مجموعہ‘‘ کاہے‘ کا ہے۔ وہ بھی یہ کہہ کر دامن چھڑا رہے ہیں کہ نام ان کا ہے تو کام آئی ایم ایف کا ہے۔ یہ بجٹ غربا کی گردن دبوچنے اور طاقتوروں کے پیروں پر ہاتھ لگانے کا گورکھ دھندہ ہے، آپ زیر دست ہیں تو یہ پھندہ ہے اور زبردست ہیں تو رعایتوں کا پلندہ ہے، بجٹ میں برق گرتی ہے اور بے چاروں پر، کہ جہاں خوب چارہ گری کی گئی ہے تو دوسری طرف طاقتوروں کی چمک کا خوب سامان کیا گیا، محترمہ بے نظیر نے چمک کی چابک ایک عدالتی فیصلے پر مار کر عوام الناس کی آنکھیں چکا چوند کردی تھیں، مگر پتا نہیں کیوں اُن کے سیاسی ورثا نے چمک اور دھمک دونوں کے آگے سر تسلیم خم کرکے بجٹ پر روٹھ کر منوا کر قبول ہے، قبول ہے کر ڈالا۔ حکومت تو پی ڈی ایم کی ہے مگر امام جماعت مولانا فضل الرحمن فارم 47 کے مصلے پر کھڑے ہونے کے لیے تیار اس لیے نہیں بتائے جاتے کہ وہ حصہ بقدر جثہ کے طلب گار ہیں، سو موذن کی تکبیر بھی ہے تو امامت بھی اور جو نیت پیش امام کی وہی نیت ہماری اللہ اکبر، مجھے تو اعداد و شمار کی بات سمجھ میں یوں بھی نہیں آتی کہ ہم کسی شمار میں ہیں نہ تین میں نہ تیرا میں۔ بس دو حکایت یاد آرہی ہیں پڑھ لیں سمجھ میں آئے تو سمجھ لیں۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر ایک گائوں میں جا پہنچا تو کھیت میں گڑ بنانے کا کام ہورہا تھا، بادشاہ وقت کو پیاس شدید تھی اور گنے کے میٹھے رس نے رال ٹپکا دی، پیاس کا اظہار کیا تو ایک گنے کا ٹکڑا بیلنے میں کاشت کار نے ڈالا تو کولہو کے بیل نے چھوٹے سے ٹکرے سے گلاس بھر ڈالا۔ بادشاہ نے جب یہ دیکھا تو نیت میں خرابی آگئی کہ ان پر ٹیکس لگا کر فائلر پہلی فرصت میں بنائے گا۔ ابھی ایک گلاس سے پیاس بجھی نہ تھی چپڑی اور دو دو کی سوچ نے جنم لیا اور مزید طلب کیا تو اُسی سائز کے گنے کے ٹکڑے سے گلاس آدھا بھرا تو کاشت کار چلا اٹھا کہ مسافر بادشاہ ہے اور اس کی نیت کے فتور نے خیروبرکت کا صفایا کردیا ہے۔ یہی صورت نیت کی خرابی پاکستان کے بادشاہ وقت میں ہے۔ شہباز کی بلند پروازی اور زر، دار کی ہوس گیری نے یہ دن دکھائے کہ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے، سندھ کی ایک کہاوت اور بھی ہے وہ بلا تبصرہ ہے کہ؛ گدھا جو شیطان کو دیکھ کر ہنکارتا ہے تو اس بری آواز کے تال میل میں زور دار ریح بھی ساتھ ساتھ خارج کرتا ہے۔ کسی نے گدھے سے پوچھا یہ تو کیا کرتا ہے دونوں طرف کی ایک ساتھ آوازیں کون سا سُر ہے تو اُس نے کہا کہ میں ہنکار کر سب پر رعب ڈالتا ہوں اور رہی ریح تو یہ اس لیے خارج کرتا ہوں کہ ڈرتا ہوں کوئی مارے نہیں۔ میرے اوپر لدی کتابوں کا مطلب اک بوجھ ہے جو لدا ہوا ہے مجھے کیا مطلب ان سے؟ یہ دو حکایتیں سمجھنے والوں کے لیے اشارہ کافی ہے، ایک لکڑ ہارے کو ہیرا ملا تو اُس نے دھوتی کا پلو پھاڑ کر ہیرے کا ہار بنایا اور گدھے کے گلے میں ڈال دیا کا بھی تذکرہ ہوتا ہے مگر گدھا تو گدھا ہے۔