جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن ایک نئے اور بامقاصد سیاسی وژن کے ساتھ بروئے کار آئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حکومت ِ وقت کو ٹارگٹ کرنے اور اسے گرانے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے عوام کو درپیش اصل مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پرامن جمہوری مزاحمت کو آگے بڑھایا جائے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف عوام کے احتجاج کو منظم کیا جائے۔ یہ احتجاج جتنا منظم اور موثر ہوگا ملک پر قابض استحصالی طاقتیں اسی قدر پسپا ہونے پر مجبور ہوں گی اور عوام کو آسانی میسر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت نے 12 جولائی سے مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس روز اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا جو ظلم و ناانصافی کے خلاف اعلان جنگ ہوگا اور یہ جنگ حصول مقصد تک جاری رہے گی۔ اسلام آباد میں دھرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں جماعت اسلامی کی زیر قیادت عوام ظلم و ناانصافی کے خلاف باہر نکلیں گے اور بجٹ میں بے تحاشا ٹیکسوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہولناک اضافوں، امن وامان کی تشویشناک صورت حال اور عدل و انصاف کی ناقدری پر پرامن احتجاج کریں گے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اِس وقت ملک میں جو حکومت قائم ہے اور جو لوگ ملک پر حکمرانی کررہے ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ واقعی اسی ملک کے باشندے ہیں اور انہیں واقعی ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال کا کوئی احساس ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے، عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے لیکن حکمران اشرافیہ کی عیاشیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ اس نے موجودہ بجٹ میں اپنے لیے مزید 50 ارب کی مراعات سمیٹ لی ہیں اور اس کسر کو پورا کرنے کے لیے بھوکے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد دیا ہے۔ ہر چیز پر ٹیکس پہلے ہی موجود تھا اب اس میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا ہے۔ چالیس پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والا ایک عام آدمی یہ ٹیکس بھی ادا کررہا ہے، مکان کا کرایہ بھی دے رہا ہے، بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی پورے کررہا ہے، پورے کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی کررہا ہے، بیمار والدین کا علاج بھی کرا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی موٹر سائیکل میں پٹرول بھی ڈلواتا ہے اور بجلی و گیس کے ہوشربا بل بھی ادا کرتا ہے۔ کیا اس محدود آمدن میں یہ سب کچھ ممکن ہے؟ لیکن عملاً ایسا ہی ہورہا ہے، اگرچہ اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر کا ہر فرد کولہو کا بیل بنا ہوا ہے۔ اس کے برعکس حکمران اشرافیہ کے افراد، جج، جرنیل اور بیوروکریٹس جن کی ماہانہ تنخواہیں 15 لاکھ سے بھی زیادہ ہیں انہیں یہ ساری سہولتیں مفت میسر ہیں۔ ایک عام آدمی بجلی کے تین سو یونٹ کا بل ادا کرنے کے لیے بلبلا رہا ہے جبکہ حکمران اشرافیہ کے افراد کو 5 ہزار یونٹ تک بجلی مفت فراہم کی جارہی ہے۔ عام آدمی نہایت مہنگا پٹرول خریدنے پر مجبور ہے جبکہ حکمران ٹولے کو گاڑی، پٹرول اور ڈرائیور سب کچھ مفت ملا ہوا ہے۔ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کیا اس ملک میں رہنے والے شہریوں کو آئین کے مطابق مساوی انسانی حقوق حاصل نہیں؟ کیا حکمران اشرافیہ میں کوئی بھی ’’رجل الرشید‘‘ ایسا نہیں جو اس ظلم و ناانصافی پر بے چینی کا اظہار کرتا پایا جائے اور اس ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت کا اظہار کرکے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرے؟ شاید اس طبقے میں ضمیر نام کی کسی چیز کا عمل دخل نہیں ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالات جب اس نہج کو پہنچ جائیں تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے اور اس تبدیلی کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ جماعت اسلامی پرامن جمہوری مزاحمت کے ذریعے اس ناگوار عمل کو روکنا چاہتی ہے، اس کا موقف یہ ہے کہ حکمران ٹولہ ازخود اپنی ناجائز مراعات سے دستبردار ہوجائے اور عوام کو ان کا وہ حق واپس کردے جو اس نے چھین رکھا ہے، اس میں عوام کا ووٹ کا حق بھی شامل ہے، جو حالیہ انتخابات میں غصب کرلیا گیا تھا اور عوام پر ایک جعلی اور غیر نمائندہ حکومت مسلط کردی گئی تھی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جمہوری جدوجہد اور مزاحمت کی تحریک میں رائے عامہ کی تمام قوتیں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تا کہ ملک میں ایک پرامن جمہوری اور بامقصد انقلاب کو ممکن بنایا جاسکے۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو پھر ہمیں بُرے انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے، افتخار عارف نے سچ کہا ہے۔
اب اور کتنی دیر یہ دہشت یہ ڈر یہ خوف
گرد و غبار عہد ستم اور کتنی دیر!