اسلام کی تعمیرو ترقی میں نوجوانوں کا کردار

347

قرآن مجید کی سورہ فرقان میں اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا: ’’اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس کے بہکاوے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا‘‘۔ ان آیات میں انسان کے پچھتاوے کا ذکر ہے۔ کہ وہ شیطان اور برے دوستوں کی وجہ سے حق کے راستے کو چھوڑ جاتا ہے اور اللہ کے پیغام اور نصیحت کو نظر انداز کر دیتا ہے، نبی ؐ نے دوستوں کی مثال کو اس طرح سمجھایا کہ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص عطر فروخت کرنے والا ہے تو جب تم اس کے پاس جائو گے تو وہ تمہیں عطر تحفہ میں دے دے گا یا پھر اس کی دوکان سے تم خوشبو کے ساتھ معطر ہو کر آئو گے اور اگر تم کسی لوہار کی دوکان پر گئے تو لوہار لوہے کو گرم کرے گا تو اس کی چنگاریوں سے تمہارے کپڑے جل جائیں گے یا پھر تم اس کا بدبودار دھواں سونگھو گے۔ سنن ترمذی کی ایک حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا تمہیں غور کرنا چاہیے کہ تم کس کو اپنا دوست بنا رہے ہو۔

نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں یعنی انسان کا ماحول ہی انسان کی فکری و عملی تربیت کرتا ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر شخص کو چار سوالات کے جوابات دینے ہوں گے عمر کہاں گزاری؟ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم و جوانی کو کہاں گزارہ۔ ان سوالات کے جوابات دینے تک کوئی شخص ایک قدم آگے پیچھے نہ کر سکے گا۔ ابھی حال ہی میں ہم نے عید قربان گزاری جس میں حجاج کرام نے مناسک حج مکمل کیے اور جو اہل ایمان اپنے ممالک اور گھروں میں تھے انہوں نے یوم عرفہ کا روزہ رکھا اور 10 ذوالحجہ کو عید منائی اور قربانیاں کیں لیکن ہم سوچیں یہ کن نوجوانوں کے اعمال تھے جن کو اللہ نے اتنی قبولیت بخشی کہ قیامت تک آنے والے لوگ ان مناسک و اعمال کو دھراتے رہیںگے در اصل یہ ابراہیمؑ، اسماعیل ؑ اور اماں حاجرہ کے اعمال تھے جن کو اللہ نے مختلف آزمائشوں میں آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اترے اس لیے اللہ نے ان اعمال کو اتنا پسند کیا کہ قیامت تک تمام صاحب حیثیت اہل ایمان ان اعمال کو دھراتے رہیں گے۔ اسی طرح اسلام میں یوسف ؑ کا تذکرہ کہ وہ اپنی حکمت، اپنے علم اور اپنے حسن و جمال کی وجہ سے یعقوبؑ کو بہت پسند تھے کُل گیارہ بھائی تھے لیکن ان کے بھائی ان کے ساتھ ضد اور حسد کرتے تھے بالآخر وہ یوسف ؑ کو اندھے کنویں میں ڈال آئے وہاں سے ایک قافلہ ان کو مصر لے گیا وہ اس طرح عزیز مصر کے گھر پہنچ گئے جب ان پر عزیز مصر کی بیوی فریفتہ ہو گئی تو اس نے یوسف ؑ کو بہکانے کی کوشش کی لیکن یوسف ؑ نے کہا کہ میں اللہ کا خوف رکھتا ہوں اور میں کسی قسم کی اخلاقی خیانت نہیں کر سکتا تو اس وجہ سے ان کو جیل میں ڈال دیا گیا پھر جیل میں اللہ نے ان کو خوابوں کی تعبیر اور حکمت بھی سیکھا دی۔ ملک کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا تو یوسف ؑ نے اس کی تعبیر بتادی جس کی وجہ سے ملک کے خزانے ان کے ہاتھ میں رکھ دیے گئے اور وہ ملک کے سربراہ بن گئے اور ایک عادل حکمران کی شکل میں سامنے آئے بالآخر عزیز مصرکی بیوی نے بھی اپنی غلطی تسلیم کی اور یوسف ؑ کے بھائیوں نے بھی اپنی کوتاہی تسلیم کی بالآخر جب یعقوب ؑ اور سب بھائی یوسف ؑ کے دربار میں پہنچے تو انہوں نے سب کو معاف کر دیا اور فرمایا ’’لا

تثریب علیکم الیوم‘‘ یہ یوسف ؑ کا کردار تھا جس کو قصص الانبیا میں یاد رکھا جائے گا۔ اسی طرح قرآن مجید سورہ الکہف میں کچھ نوجوانوں کا تذکرہ کرتا ہے جو تعداد میں پانچ یا سات تھے انہوں نے اپنے ایمان کو بچانے کی خاطر غار میں پناہ لے لی لیکن وقت کے طاغوت اور ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق پر کھڑے رہے کفر کو ماننے سے انکاری ہو گئے وہ نوجوان اپنے دین و ایمان اور اپنی جان بچانے کے لیے غار میں چلے گئے ان کا کتا بھی ان کے ساتھ غار کے دھانے پربیٹھا رہا اس غار میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو سال سلائے رکھا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو جگایا ان میں سے ایک بازار میں آیا کہ کچھ کھانا لے جائے تو آگے دنیا بدلی ہوئی پائی جس سے ان کا راز بھی کھل گیا۔ قرآن مجید میں لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو نصیحتوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو شرک سے منع کرتے ہیں، توحید پر کار بند رہنے کا حکم دیتے ہیں، ساتھ بتاتے ہیں کہ اللہ ہی سے مانگو اللہ باریک بین ہے وہ سب کی سننے والا ہے، اپنے بیٹے کو نماز کا حکم دیتے ہیں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیتے ہیں، مشکلات پر صبر کا حکم دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ غرور و تکبر سے اجتناب کرنا اور ساتھ کہتے ہیں کہ بیٹا اپنی آواز کو پست رکھنا اونچی آواز گدھے کی آواز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے لہٰذا تم اپنی آواز کو پست رکھنا یہ وہ نوجوان تھے جن کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ دوسری طرف نبی ؐ کے ساتھی جن کی آپ ؐ نے تربیت کی تھی آپ ؐ پر ایمان لائے تھے ان میں سے کچھ نے لمبی عمریں پائیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے اسلام لانے کے بعد مختصر عمر پائی اور شہید ہو گئے ان صحابہ اکرامؓ نے اسلام کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ان میں سعد بن ابی وقاصؓ جنہوں نے کفار مکہ میں سے ایک کو اونٹ کی ہڈی دے ماری اور کفار کا یہ پہلا خون تھا جو کسی مسلمان کے ہاتھوں بہا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ابھی مسلمان بھی نہ ہوئے تھے کہ آپ ؐ کے معجزات سے متاثر ہوکر کہنے لگے ’’علمنی مما علمک اللہ‘‘ کہ آپ اس علم سے مجھے بھی کچھ سیکھا دیجیے جس کا علم آپ ؐ کو اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ابھی مسلمان نہیںہوئے تھے لیکن ان کی امانت و دیانت کی وجہ سے آپ ؐ نے ان کو پڑھے لکھے ہوئے ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا اور فرمایا ’’انک لغلام معلم‘‘ کہ آپ تو پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ زبیر بن عوام ؓ جو نبی ؐ سے عشق اور محبت رکھتے تھے آپ ؐ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک ’’حواری‘‘ راز دان ہوتا ہے نبی ؐ نے زبیر بن عوام ؓ کو اپنا راز دان ’’حواری‘‘ قرار دیا۔ سیدنا عمر ؓ کی سیرت تو ایسی سیرت ہے کہ آپ ؐ نے ان کے ایمان کے لیے خود دعا فرمائی اور جب مسلمان ہوئے تو مکہ میں بھی اسلام کا بول بالاشروع ہو گیا سیدنا عمر ؓ کے ایمان لانے سے حرم کعبہ میں امامت کے ساتھ نماز شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ اسی طرح سیدنا سعد بن معاذ ؓ تیس سال کی عمر میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر مدینہ میں مسلمان ہوئے اور 36 سال کی عمر میں غزوہ خندق میں زخمی ہوئے اور بنوقریظہ کے بارے میں انہوں نے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے جنگ جووںکو قتل کر دیا جائے، ان کے بچوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بنا دیا جائے اور ان کے اموال کو ضبط کر لیا جائے۔ اس فیصلہ کے کچھ دنوں کے بعد سعد بن معا ذ ؓ کی شہادت کا واقع پیش آیا اور اسی زخم کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی۔ ان تمام انبیاء کرام ؑ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایمان، اخلاص، امانت و دیانت، جرأت و استقامت، دلیری اور بہادری، صبرو تحمل اور اعلیٰ اخلاق و کردار ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس لیے ان خواص و اسلاف کے آئینہ میں ہمیں آج کے نوجوان کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)