کے الیکٹرک یا کلر الیکٹرک

377

آج کل جس طرح کراچی میں شدت کی گرمی پڑرہی ہے یہ ایک لحاظ ہیٹ ویوز ہی ہے اب تک پچھلے گیارہ دنوں میں صرف ایدھی کے سرد خانوں جو میتیں لائی گئیں ان کی تعداد 1317 ہیں اس میں بہت بڑی تعداد ان کی ہے جو گرمی سے ہلاک ہوئے ہیں یہ تعداد تو ایدھی سرد خانے کی ہے جو لوگ اسپتال سے میت گھر لے گئے یا جن کا گھروں پر ہی گرمی کی شدت سے انتقال ہوگیا وہ اسپتال آئے ہی نہیں ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو بہت بڑی تعداد بن جائے گی۔ اب اس میں ایک بہت بڑی تعداد ان کی ہے جو کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی برداشت نہ کرسکے اور انتقال کرگئے۔ اسی طرح 2015 میں جو ہیٹ ویو آیا تھا اس میں ایک ہفتے میں ایک اندازے کے مطابق چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے مردہ خانوں میں جگہیں کم پڑگئیں تھیں ایمبولینس نہیں مل رہی تھیں لوگ سوزوکیوں پر میتوں کو لا اور لے جارہے تھے۔ اس وقت بھی لوڈشیڈنگ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ بنی تھی اور کراچی کے شہریوں کا کے الیکٹرک کے خلاف غصہ عروج پر تھا اور یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ کے الیکٹرک کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کیا جائے کہ اس کی نااہلی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر اموات ہوئی ہیں۔ اس وقت بھی آج کی طرح مرکز میں ن لیگ اور صوبہ سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کی حکومت تھی۔ آج صوبائی حکومت میں ایم کیو ایم تو شامل نہیں ہے لیکن یہ تینوں جماعتیں حکومت کی اتحادی تو ہیں۔

کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کو دو طریقوں سے مار رہی ہے ایک تو یہ کہ شدید گرمی میں غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کرکے دوسرا جان سے مارنے کو طریقہ واردات بلوں کی زیادتی ہے جس سے لوگ قسطوں میں مررہے ہیں۔ ایک تو لوڈ شیڈنگ وہ ہے جس کا میسج آجاتا ہے کہ آپ کے علاقے میں لوڈشیڈنگ کے یہ ٹائمنگ ہوں گے۔ اس میں بھی اکثر ڈنڈی مارتے رہتے ہیں ہم اس کو ادارے کا مذاق سمجھ کر درگزر کرجاتے ہیں۔ لیکن ہمیں اذیت اس وقت ہوتی ہے جب غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوجاتی ہے جس کا جانے کا تو پتا ہوتا ہے لیکن آنے کا نہیں، آپ کمپلین سینٹر فون کریں تو فوراً فون اٹنڈ کرلیا جائے گا، آپ کو کمپلین نمبر دے دیا جائے گا اب آرام سے سو جائیے لیکن سوئیں کیسے بجلی ہی نہیں ہے، ایک گھنٹے بعد پھر فون کریں گے تو جواب ملے گا کہ گاڑیاں گئی ہوئی ہیں ان شاء اللہ ایک سے دو گھنٹے تک بجلی آجائے گی۔ آپ ڈھائی گھنٹے بعد فون کرتے ہیں اب فون نہ اٹھانے کا ماحول شروع ہوتا ہے لیکن ابھی بالکل ایسا نہیں ہے آٹھ دس بار گھنٹی بجنے کے بعد پھر لڑکی فون اٹھاتی ہے تو اب ایک اور رٹا رٹایا جواب ملتا ہے کہ آپ کی شکایت پر کام ہورہا ہے، آپ کے صبر کا پیمانہ اگر لبریز ہوگیا اور آپ نے ذرا سخت لہجے میں بات کیا تو آپریٹر یہ کہہ کر آپ کو ڈرائے گی کہ سر آپ کی آواز ریکارڈ ہورہی ہے، جیسے کہ دکانوں اور مارکیٹ میں یہ جملے لکھے ہوتے ہیں کہ خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔ اب آپ فون کریں گے تو چونکہ آپ کا فون نمبر وہاں اسکرین پر آچکا ہے اب وہ مرحلہ آجاتا ہے جس میں آپ کا فون ریسیو نہیں ہوگا پھر یہ اتنا ٹائم گزرچکا ہوتا ہے ان کی طرف سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جو عموماً آٹھ سے دس گھنٹوں کی ہوتی ہے وہ وقت گزرچکا ہوتا ہے اور آپ کے یہاں بجلی آجاتی ہے۔

غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ لائن میں کوئی فالٹ ہو گیا ہے یا یہ کہ پی ایم ٹی میں کوئی بات ہو گئی اس کو دیکھ رہے ہیں پی ایم ٹی میں کے الیکٹرک کی گاڑیاں بھی کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عام حالات میں یہ سب سچ ہوتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکثر لوڈشیڈنگ ادارے کی طرف سے جان بوجھ کر کی جاتی ہے اب اس کی کوئی بھی ٹیکنیکل وجہ ہو لگتا یہی ہے کہ جان بوجھ کر ستایا جارہا ہے۔ اس لیے کہ پی ایم ٹی پر بھی سناٹا رہتا ہے پھر کون سے کوہ قاف میں بجلی کا فالٹ دور کیا جارہا ہے۔ اس میں طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی ایک فیز کی لائٹ بند کردی جاتی ہے، چونکہ فیز کے دائرے محدود ہوتے ہیں کسی احتجاج یا ہنگاموں کا خطرہ نہیں رہتا بس فون کی حد تک بات رہتی ہے اکثر تو حقیقتاً فیز اڑ جاتا ہے لیکن یہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس میں بھی غلطی کے الیکٹرک کی ہی ہے تانبے کے تار نکال کر ایلیمونیم کے تار ڈالے گئے جو لوڈ برداشت نہیں کرپاتے لیکن اس میں فیز جانے کا دورانیہ مہینے دو مہینے میں ایک دو بار ہوجاتا ہے لیکن جب فیز جانے کا سلسلہ ہر دوتین دن کے بعد ہونے لگے تو پھر سوال تو بنتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ آپ کے یہاں اگر دن کی پہلی لوڈشیڈنگ صبح 9سے 10.30 یا 11تک کی ہے اگر 11بجے لائٹ آگئی تو ٹھیک ہے اور نہیں آئی تو سمجھ لیں کہ آپ دن بھر کے لیے گئے اور بچے آکر یہ بتائیں کہ پڑوس میں فلاں کے گھر تو لائٹ آرہی ہے تو سمجھ لیں فیز گیا حالانکہ اس کی درستی کوئی پیچیدہ یا وقت طلب عمل نہیں ہے، لیکن کہا یہی جاتا ہے بہت زیادہ تعداد میں کمپلین آئی ہوئی ہیں جب آپ کا نمبر آئے گا تو کام ہو جائے گا۔ نمبر کا کیا آنا جب دس گھنٹے پورے ہو جائیں گے وہ بجلی کھول دیں گے۔

اس آٹھ دس گھنٹے بجلی نہ ہونے کے جو اثرات گھروں پر پڑتے ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہوتے ہیں اگر صبح کا وقت ہے تو بچوں کو منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کرکے اسکول جانا مردوں کو دفاتر جانا ہے اگر بچوں کے یونی فارم پر رات کو استری نہیں کی تو اور الجھن بڑھ جاتی ہے گرمی کی جو شدت ہے وہ تو ہوتی ہے اگر خاتون خانہ بھی ورکنگ وومین ہیں تو پھر نہ پوچھیے کہ کیا ہاہا کار مچتی ہے۔ دوسری مشکل یہ کہ آپ نے رات کو انڈر گرائونڈ ٹینک تو بھر لیا لیکن اوورہیڈ ٹینک خالی ہے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں پانی ہوتے ہوئے پانی کے استعمال سے محروم ہیں اگر اوپر کچھ فلیٹس بنے ہوئے ہیں یا کرئے دار ہیں تو سب کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے پھر مجبوراً پینے کا وہ پانی استعمال کرنا پڑتا ہے جو فلٹر پلانٹ سے لایا جاتا ہے۔ اگر گھر میں کوئی بیمار ہے بالخصوص سانس کا مریض ہے تو اس کی حالت اور خراب ہوجاتی بعض اوقات تو اسپتال لے جانے کی نوبت آجاتی ہے، بندہ موبائل سے بھی دل نہیں بہلا سکتا کہ چارجنگ ہی بہت کم ہے آنے ولے فون سننے کے لیے کچھ تو بیٹری ہو، سارے معاملات تو بجلی سے اٹکے ہوئے ہیں۔

کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی فلیٹوں میں رہتی ہے بڑے بنگلے والوں کو چھوڑدیں ان کے یہاں تو تھری فیز کنکشن، جنریٹر، طاقتور سولر پینل ہوتے انہیں تو کوئی پریشانی نہیں چھوٹے پلاٹوں پر بھی جو مکانات بنائے جاتے ہیں اس میں بھی اب کوئی کھلا پورشن نہیں ہوتا۔ مکانوں کے طرز بناوٹ میں تبدیلیاں آگئی ہیں اب سے چالیس پچاس برس پہلے جو مکانات بنائے جاتے تھے اس میں کچھ کھلا حصہ ہوتا تھا تاکہ آسمان ہمیں اپنے گھر سے نظر آئے، اب پلاٹ پر مکان بھی فلیٹ کے طرز پر بنائے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے ہم قدرتی ہوائوں کے دلکش جھونکوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں دنیا میں جو گلوبل چینج آرہی ہے اور جس طرح حبس والی گرمی پڑرہی ہے اس کی وجہ سے ائر کنڈیشن اب تعیشات تو کیا آسائشات میں بھی نہیں رہا بلکہ ضروریات زندگی بن گیا ہے۔ کے الیکٹرک کے بارے میں کیا لکھا جائے آج نہیں تو کل یہ کلر الیکٹرک بن جائے گا جن لوگوں نے اس کو مزید بیس سال کے لیے ہم پر مسلط کیا ہے وہ عوام کے مصائب کے ذمہ دار یہ کون لوگ ہیں کیوں ایسا کیا پھر کبھی اس پر بات کریں گے۔