مسعود پزشکیان کے لیے دُو دھاری خنجر

333

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ ایران صدارتی انتخاب کے مرحلے سے گزرا اور اقتدار کا ہُما اصلاح پسند لیڈر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے سَر پر بیٹھ گیا ہے۔ آج دنیا ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے کہ کسی کے لیے بھی اقتدار کی مسند پھولوں کی سیج نہیں۔ دنیا مسائل سے گِھری ہوئی ہے۔ وہ زمانے کب کے جاچکے جب کسی ملک کو صرف اپنے معاملات سے غرض ہوتی تھی اور باہر دیکھنے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب تمام ہی معاملات ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی کچھ ہوتا ہے تو بہت کچھ ہل ہلا جاتا ہے۔ ایران بھی جزیرہ نہیں بلکہ سمندر کا حصہ ہے۔ جو کچھ علاقائی اور عالمی سطح پر واقع ہو رہا ہے وہ ایران کے معاملات، پالیسیوں اور حکمت ہائِ عملی پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ ایسی پریشان کن صورتِ حال میں مسعود پزشکیان کا ایران کے صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونا کس نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرے گا، ایران کے لیے کتنی آسانیاں پیدا کرسکے گا، یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے سوال ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔

اِس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مسعود پزشکیان ایران کو معاشی و معاشرتی بحران سے نکال پائیں گے یا نہیں۔ ایران کے لیے معیشت میں بھی خرابی ہے اور معاشرت میں بھی۔ قوم مذہبی قیادت سے بہت حد تک اُوب چکی ہے۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایسی تبدیلی جو اُنہیں معاشی راحت بھی دلائے اور معاشرتی ہم آہنگی بھی۔ دوسرے بہت سے امیدواروں کی طرف مسعود پزشکیان بھی وعدوں کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایوانِ اقتدار تک پہنچے ہیں۔ وہ ایران کے صدر کی حیثیت سے کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں یہ بعد کی بحث ہے۔ اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ اُنہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگاکر جو وعدے کیے ہیں اُنہیں پورا کرنے کی گنجائش ہے بھی یا نہیں۔

ایران میں سیاسی اور معاشرتی تفریق نمایاں ہے۔ رجعت پسندوں اور انتہائی رجعت پسندوں کے لیے اقتدار کسی نہ کسی طور بچانا بہت بڑا چیلنج تھا۔ اصلاح پسند بھی اس بار خم ٹھونک کر انتخابی اکھاڑے میں اُترے تھے۔ ایرانی قوم کا ایک بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اِدھر جائے یا اُدھر۔ رجعت پسندوں یعنی مذہبی عناصر نے قوم کی حالت بدلنے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ عوام اُن سے بیزار ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اصلاح پسند عناصر بھی قوم کے لیے کچھ خاص ڈلیور کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ قوم اُن سے بھی کسی حد تک بیزار ہے۔ ہاں، اُن کے حوالے سے مکمل مایوس وہ البتہ نہیں ہوئی ہے۔

مسعود پزشکیان اگرچہ 70 سال کے ہیں مگر پھر بھی اُن میں خاصا دم خم ہے۔ وہ امراضِ قلب کے بڑے ماہر اور سرجن ہیں۔ وہ وزیرِ صحت بھی رہ چکے ہیں۔ ایسے میں قوم کو بجا طور پر اُن سے اپنی بیماریوں کے علاج کی توقع رکھنی چاہیے۔ مسعود پزشکیان کے حوالے سے یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کیونکہ 1994 میں کار کے ایک حادثے میں اہلیہ اور بیٹے کی موت کے بعد انہوں نے حواس برقرار رکھتے ہوئے اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کو پوری توجہ کے ساتھ پالا، تعلیم دلوائی اور اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ اُنہوں نے دوسری شادی کرنے کے بجائے اپنے بچوں کی پرورش پر خود بھرپور توجہ دی۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ذاتی حیثیت میں وہ کس قدر صاحب ِ استقامت ہیں۔

مسعود پزشکیان کے سامنے کئی بڑے چیلنج ہیں۔ غزہ کی صورتِ حال نے ایران کو بھی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ غزہ کے مظلوم باشندوں کی طرف سے بدلہ لینے کے لیے یمن، لبنان اور عراق کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا میدان میں ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کی اسرائیلی فوج سے جھڑپیں شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہیں۔ اگر ایرانی قیادت اِس مرحلے پر کوئی غلطی کر بیٹھے تو خاصی وسیع البنیاد جنگ بھی چِھڑ سکتی ہے۔ نئی ایرانی قیادت کو عالمی اور علاقائی اُمور کے حوالے سے بالکل متوازن طرزِ فکر و عمل اپنانا ہوگی۔

مغرب سے تعلقات بہتر بنانا مسعود پزشکیان کے لیے سب سے بڑا چیلنج، بلکہ دردِ سر ہوگا۔ امریکا اور یورپ نے ایران پر جو اقتصادی پابندیاں تھوپ رکھی ہیں اُن کے خاتمے کے لیے ایران کو کہیں کہیں واضح طور پر جُھکنا پڑے گا۔ مسعود پزشکیان کو بیش تر معاملات میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ جذباتیت کی رَو میں بہہ کر کیے جانے والے فیصلے ملکی معیشت اور سفارت کے لیے پائے جانے والے مسائل کو مزید پیچیدہ بناسکتے ہیں۔ ایرانی قوم غیر معمولی معاشی مشکلات جھیلنے پر بھی تاحال بہت حد تک مستحکم ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کے لیے حقیقی ریلیف یقینی بنانے کی خاطر کچھ نہ کیا جائے۔ طبقاتی فرق ایران میں بھی ہے۔ امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہوتے جانے کی کیفیت وہاں بھی ہے۔

مذہبی طبقہ اقتدار کے ایوانوں میں طویل مدت تک رہا ہے اِس لیے بہت مضبوط ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ ممکن بنانے کے لیے بہت کچھ کرتا رہا ہے۔ اب اصلاح پسند ایوانِ اقتدار میں آئے ہیں تو اُنہیں عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔ مسعود پزشکیان عام آدمی ہیں۔ اشرافیہ سے اُن کا تعلق برائے نام ہے۔ ایسے میں حالات کے ستائے ہوئے ایرانیوں کی اکثریت بجا طور اُن سے بہت سے اچھے، عوام دوست اقدامات کی توقع رکھے گی۔ ساتھ ہی ساتھ مسعود پزشکیان کو علاقائی سطح پر اور بالخصوص پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے کا ڈول بھی ڈالنا پڑے گا۔ دیکھیے وہ کیا کر پاتے ہیں۔