انسان ہی اجڑتا نہیں تقسیم نظر سے
یزداں بھی بکھر جاتا ہے ادیان میں بٹ کر
مجبور کو دیتا ہے کہاں حق کوئی غاصب
حق چھیننا پڑتا ہے لٹیروں سے جھپٹ کر
پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے ’’فوجی فرٹیلائزر کیس‘‘ کی روشنی میں، صوبائی حکومتوں کے لیبر قوانین میں ٹھیکیداری نظام کو قانونی حیثیت دینے اور ٹھیکیدار کو مالک کی تعریف میں شامل کرنے کے بارے میں کچھ خاص قانونی اور آئینی مسائل سامنے آتے ہیں۔ آئیے ان مسائل کو تفصیل سے دیکھتے ہیں:
فوجی فرٹیلائزر کیس کا خلاصہ:
’’فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ بنام این آئی آر سی‘‘ کیس میں سپریم کورٹ نے چند اہم نکات پر روشنی ڈالی:
مزدور کی حیثیت: عدالت نے قرار دیا کہ جو مزدور فیکٹری کی باؤنڈری وال کے اندر کام کرتے ہیں، انہیں اسی فیکٹری کے ورکر تصور کیا جائے گا، نہ کہ ٹھیکیدار کے۔
مستقل پوسٹ پر ٹھیکیداری سسٹم: سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مستقل پوسٹ پر ٹھیکیداری سسٹم کے تحت ملازمین کو رکھنا انہیں قانونی حقوق سے محروم کرتا ہے اور اس لیے ایسا کرنا مناسب نہیں۔
آئینی اور قانونی پہلو:
آئین پاکستان کی روشنی میں:
بنیادی حقوق: آئین کے آرٹیکل 17، 18، اور 25 مزدوروں کے حقوق، انجمن سازی کی آزادی، اور مساوی مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ یہ دفعات یقینی بناتی ہیں کہ ہر شہری کے ساتھ مساوی سلوک ہو اور ان کے حقوق کا تحفظ ہو۔
آئین کے تحت پابندیاں: صوبائی قوانین کو آئینی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ کوئی بھی قانون سازی جو مزدوروں کے حقوق کو محدود کرتی ہے یا سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہے، وہ آئین کے خلاف سمجھی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں:
قانونی نظیر: سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر کام کرتا ہے اور تمام نچلی عدالتوں اور قانون سازوں پر لاگو ہوتا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق، فیکٹری کے اندر کام کرنے والے مزدوروں کو اسی فیکٹری کے ورکر تصور کیا جانا چاہیے اور ٹھیکیداری نظام کے تحت مستقل پوسٹ پر انہیں رکھنا قانونی حقوق سے محروم کرنا ہوگا۔
ملازمین کے حقوق: سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ مزدوروں کو قانونی حقوق اور تحفظات سے محروم کرنا آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔
صوبائی قانون سازی کے اثرات:
ٹھیکیدار کو مالک کی حیثیت دینا:
کئی مالکان اور یونینز کا مسئلہ: اگر صوبہ ٹھیکیدار کو مالک کی حیثیت دینے کے لیے قانون سازی کرتا ہے تو اس سے ایک فیکٹری کے اندر کئی مالکان اور متعدد یونینز کی تشکیل ممکن ہو جائے گی، جو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
قانونی چیلنج: ایسی قانون سازی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہو، اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ فیکٹری کے اندر کام کرنے والے تمام ملازم فیکٹری کے ورکر تصور ہوں گے، نہ کہ ٹھیکیدار کے۔
مزدوروں کے قانونی حقوق:
حقوق کا تحفظ:سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ٹھیکیداری نظام کے تحت ملازمین کو مستقل پوسٹ پر رکھنا انہیں قانونی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ صوبائی قانون سازی کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ مزدوروں کے حقوق محفوظ رہیں اور انہیں قانونی تحفظات حاصل ہوں۔
انجمن سازی:آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت مزدوروں کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے۔ کئی یونینز کی تشکیل مزدوروں کی اجتماعی گفت و شنید کی طاقت کو کمزور کر سکتی ہے، جو کہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے اصولوں کے خلاف ہے۔
نتیجہ:
آئین کے تحت تحفظ: صوبائی حکومت کے لیے کوئی بھی نئی قانون سازی جو ٹھیکیدار کو مالک کی حیثیت دینے کی کوشش کرے، اسے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں احتیاط سے کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ: سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، فیکٹری کے اندر کام کرنے والے تمام مزدور اسی فیکٹری کے ورکر تصور کیے جائیں گے۔ اگر کوئی قانون سازی اس اصول کے خلاف ہو، تو یہ آئینی حقوق اور عدالتی نظیر کے منافی ہوگی اور ممکن ہے کہ عدالت میں چیلنج کی جائے۔
صوبائی حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی قانون سازی مزدوروں کے حقوق اور قانونی تحفظات کو مدنظر رکھتی ہو اور آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہو۔ کسی بھی ترمیم یا قانون سازی کو آئین کے بنیادی حقوق اور عدالتی نظائر کے مطابق ہونا ضروری ہے تاکہ مزدوروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچے۔