فلسطینیوں اور حماس کی استقامت کے سامنے اسرائیلی شہریوں نے شکست تسلیم کرلی

219

مقبوضہ بیت المقدس:صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پر مسلط کی گئی جنگ کے بعد سے اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں خصوصاً اہل غزہ کی استقامت کے سامنے اسرائیلی شہریوں نے بھی شکست کا اعتراف کرلیا۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقت اور امریکا کی بھرپور معاونت کے حامل اسرائیل حماس مجاہدین کےجذبہ جہاد کے سامنے تقریباً بے بس ہو چکا ہے اور مسلسل جنگ کے باوجود حماس کو شکست نہ دینے اور کئی فوجی ہلاک کروانے کے بعد اب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔

دریں اثناایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 68 فی صد اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں کامیابی حاصل کرنا اسرائیل کے لیے اب بھی ایک خواب ہے۔ صہیونی ریاست کے میڈیا چینل کی جانب سے ہونے والے ایک جائزے میں دو تہائی اسرائیلیوں نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے بجائے یرغمالیوں کی واپسی زیادہ ضروری ہے۔ 67 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت جنگ کو جاری رکھنے سے زیادہ اہم یرغمالیوں کی واپسی ہے۔

جنگ اب تک ختم نہ ہونے کی کیا وجہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے 54 فیصد افراد نے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی سیاست کو اس کی وجہ قرار دیا۔ 34 فیصد نے کہا کہ اس کی وجہ آپریشنل معاملات ہیں۔ سروے میں 68 فیصد اسرائیلیوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ جنگ میں فتح سے بہت دور ہے جس کا نیتن یاہو نے اپنے عوام سے وعدہ کیا تھا۔

سروے سے پتا چلا کہ نیتن یاہو کی اسرائیل میں مقبولیت تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے اور اس وقت وہ ایک ناپسندیدہ ترین شخصیت ہیں۔ دو تہائی سے زیادہ 68 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ نیتن یاہو کی کارکردگی خراب ہے۔

43 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں؟ جبکہ 29 فیصد نے کہا جنگ ختم ہوتے ہی کرائے جائیں۔

واضح رہے کہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے نتیجے میں باالآخر نیتن یاہو حکومت نے غزہ جنگ سے پیچھے ہٹنے کا منصوبہ بنالیا۔ تاہم نیتن یاہو کو اس مشکل کا سامنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے اعلان کو اپنے عوام کے سامنے فتح بناکر کیسے پیش کیا جائے۔