سندھ کا ڈاکو راج کیسے تاراج؟

295

سابق وزیر قانون اور موجودہ وزیر داخلہ حکومت سندھ نے یہ بیان دیا کہ محکمہ پولیس میں ریٹائرڈ فوجیوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ ضیا الحسن لنجار جو حکومت سندھ کے داخلہ امور کے نگہبان ہیں اُن کے اِس اعلان سے یہ بات تو صاف ظاہر ہوگئی کہ سندھ پولیس ڈاکوئوں کے سامنے ناکارہ ثابت ہوگئی اور یوں ہی سندھ میں متعین رینجرز میں فورس بھی کوئی سود مند ثابت نہیں ہورہی، ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ پولیس کے جوانوں کو اغوا کررہے ہیں۔ شاہراہیں غیر محفوظ ہوگئی ہیں، دن رات کی قید کے بغیر ڈاکو جب دل چاہے اور مرضی میں آئے کارروائی کرکے جس کو چاہا اغوا کرلیا جس کو چاہا لوٹ لیا اور بے خوف خطر کارروائی کر ڈالی۔ بحفاظت لوٹ لیے، سو اب سندھ حکومت نے ڈوبتی حکومتی رٹ کو سہارا دینے کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں سے استفادہ کا عجب نہ سمجھ میں نہ آنے والا فیصلہ کر ڈالا جو بھلا ریٹائرڈ کردیا وہ کام کا کب رہا؟ اور اگر کام کا ہوتا تو ریٹائرڈ کیوں کیا گیا؟ یہ پرانی پیاز سے علاج والی بات ہے جو بڑے بوڑھوں سے ایک حکایت کی صورت چلی آرہی ہے۔

یہ بیان اُس مرحلے میں آیا ہے جب سندھ میں پولیس بھرتی کے ہزاروں امیدواروں سے ٹیسٹ لیا گیا اس بیان سے اُن کی امید پر اوس پڑ گئی ہے۔ اب پولیس ڈاکوئوں کے مقابلے سے ریٹائرڈ فوجیوں کی بھرتی سے فارغ ہوگئی تو وہ پروٹوکول شاہانہ اور عوام الناس سیاسی مخالفین کو ڈراوے کے ہی کام آئے گی۔ دراصل پولیس کو بھی سیاسی امراض کا لاحقہ ہے اور یہ ہی اُن کی کمزوری کی بنا ہے، ایک تو یہ کہ پولیس میں بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر معمول ہے، سو لٹیرے تک اس محکمہ میں بھرتی کرا دیے گئے، یہ بھرتی شدہ چور اُچکے ہزاروں کی تعداد میں ہیں، کچھ بطور ثواب میرٹ پر بھرتی ہونے دیے گئے تو سیاسی جغادروں نے اُن کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں کہ وہ مجبور ہیں اُن کی تابعداری پر ورنہ پھر گھاٹ گھاٹ کا پانی کے سزاوار بنادیے جاتے ہیں، دور دراز تبادلہ ہوجاتا ہے۔ اب محکمہ پولیس سیاسی کرم خوردہ ہو کر ناکارہ ہوگیا ہے، ڈاکوئوں کی ایک بڑی تعداد بھی سیاسی ہے ان کی باگ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے، جیکب آباد، شکارپور، کشمور کی بدامنی جہاں عالمی طور پر بدنامی کا باعث بن رہی ہے وہاں پولیس کے محکمے کی کالی بھیڑوں کی کمائی کا سامان آپریشن کے نام پر ہو رہا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے حالیہ دورہ سکھر کے موقع پر کہا کہ جو ڈاکو سرینڈر کریں گے وہ معافی پائیں گے اور جو باز نہیں آئیں گے کچل دیے جائیں گے۔ محکمہ پولیس کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جائے گا بہت ہوگئی اب بدامنی برداشت نہ ہوگی، مگر یہ کب کیسے ہوگا۔

اب آجائیں کچے کے علاقے کے حدود اربعہ کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کچے میں 238 دیہات ہیں اور کُل آبادی 4 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس علاقے میں 8 پولیس اسٹیشن اور 20 چیک پوسٹ ہیں، جرائم پیشہ گڑھ کشمور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی تثلیث کی سرحد رکھتا ہے اور اس کا فائدہ ڈاکو خوب اُٹھاتے ہیں، راہ فرار میں سرکار کے لیے یہ بند ایریا ہے۔ یوں نو گوایریا بنا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر گھوٹکی اور کندھ کوٹ کے درمیان پل بنا دیا جائے تو یہ علاقہ کھل جائے گا۔ ڈاکو جو وحشی ہوچکے ہیں مرد و زن، بچے بوڑھے ہر اک کو زیر عتاب اور کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ان پر شرعی سزا ’’فساد فی الارض‘‘ کا اطلاق کرکے ان کا تیا پانچہ کردینا چاہیے۔ یہ استحکام امن وامان سندھ آپریشن اب ناگزیر ہوگیا ہے، ورنہ سندھ بھی ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ ہے۔ سندھ بھارت کا ٹارگٹ بھی ہے وہ بے تحاشا اس میں سرمایہ لگا رہا ہے۔

صحافت صفائی مانگتی ہے

صحافت ِ سندھ پہ آکے عجب وقت پڑا ہے کا مرثیہ روزنامہ جسارت میں پے در پے شائع ہوئے تو بات یہاں پر ٹھیر گئی کہ کوئی ایسی مثال ہو جو صحافت کے مردان حر، جو مردانہ وار اب بھی حق و سچ کے مورچہ پر چٹان کی صورت کھڑے ہیں ان کی ترجمانی کرسکے تو مجھے ایک صحافی جو چشم دید سے اس کا کردار اور اللہ کی اس پر عنایت اور یوں کی رزق ہلال کی بدولت آنکھوں کی ٹھنڈک اور پرسکون زندگی کا ساماں رہا یاد آیا۔ جی ہاں یہ 1979ء کی بات ہے یہ سال دنیا میں انقلاب کا سال کہلاتا ہے۔ ایران میں شہنشایت کا خاتمہ، روس کی افغانستان میں آمد نے اس سال نئی کروٹ اور تاریخ کا اہم باب رقم کیا، وہ صحافی اس سال بنا اُس کی عمر عین شباب کی تھی، اُس نے حق اور سچ کے عہد کے ساتھ جہاد بالقلم کا عزم کیا اور لقمہ حرام، جو صحافت میں عام اور معمول تھا سے پرہیز کا اہتمام کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ صحافت کے میدان میں عجوبہ سمجھا جانے لگا۔ اور سندھی زبان کے مطابق حق اور سچ کی کشتی ہچکولے کھاتی ہے ڈوبتی نہیں کے مصداق کنگھالا گیا اور وہ پاکیزہ رہا اور ربّ نے اُس کی دستگیری کی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے صحافت کے میدان میں مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

انتہائی محدود آمدنی جس کو ہینڈ ٹو مائوتھ سے زیادہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا میں اُس نے زندگی کو مسافر کی طرح شکر اور صبر کے ساتھ گزارا، یہ ربّ کی نصرت سے ممکن ہوا۔ ربّ نے اولاد دی تو اس صحافی نے ربّ سے کہا کہ میری ضروریات سب تیرے سپرد ہیں تو پوری کرنے والا ہے ربّ نے اس کی دعا کو قبولیت بخشی اور وہ اس کی کفالت کا سامان ہونے لگا۔ کوئی زندگی کا ایسا مرحلہ نہیں گزرا کہ اس کی ضرورت کا سامان نہ ہوا۔ اللہ نے نیک صالح اولاد عطا کی اور ان میں دین دنیا کی تعلیمات کی جوت جگائی۔ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ، نمازی پرہیز گار ربّ نے بنائے اور پھر ایسی جگہ سے رزق عطا کیا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اُس کا ایک بیٹا یونیورسٹی میں سال دوم کا طالب علم تھا تو بیٹی کا یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا تو آزمائش آن پڑی کہ ادارے سے تنخواہ کی آمد بند ہوگئی ایک بحران نے سر اٹھایا۔ تعلیم کے اخراجات کا مسئلہ تھا۔ دونوں بچوں نے اسکالر شپ کے ٹیسٹ دیے اور دونوں پاس ہوگئے، اب ایک گھرانے میں دو اسکالر شپ کے چیک آئے تو یونیورسٹی انتظامیہ کے قانون آڑے آگئے، یونیورسٹی کی 35 سالہ تاریخ اور قانون میں اس کی گنجائش نہ تھی ایک چیک روک لیا گیا اور ہائر ایجوکیشن سے رہنمائی مانگی گئی تو اس نے اجازت دے دی کہ اہل ہیں تو دے دو، اور یوں ہی اس کی اولاد تعلیم سے فارغ ہوتی گئی۔ سرکاری ملازمت کا میرٹ پر سامان ہوگیا اور تو اور اس کی بیٹی کی شادی کا بھاری خرچ منہ پھاڑے سامنے آیا تو اس کو ملا ہوا صحافی کالونی کا پلاٹ اس نازک مرحلے میں مسیحا ثابت ہوا اور جتنے ہزار روپے میں خریدا اتنے لاکھ روپے میں بک گیا اور یوں اس صحافی نے ربّ کے اس فرمان سے ایمان کو تقویت پائی کہ ایک دانہ سے ربّ سو دانے نکالتا ہے۔

یوں ہی ربّ کی عنایت سے وہ روسی جارحیت افغانستان میں جہاد دھول کے غسل سے نار جہنم سے ڈھال کے سامان کی سعادت سے بہرہ مند ہوا، رہا صحافتی آزمائش جن اداروں کے نام سے بڑوں کا پِتّا پانی ہوتا ہے ان کے ہاں بھی حاضری لگی عدالتوں کے چکر بھی ظالموں نے کٹوائے، دھمکی کے ڈھول بھی خوب سننے اور یوں صحافت کے اب وہ 45 سال پورے کررہا ہے۔ قول و کردار کے اس غازی کو اس غازہ بدبودار سے پاک اللہ نے رکھا جو خاصہ صحافت بن چکا ہے اور جس نے اللہ پر بھروسا کیا اللہ اس کے لیے کافی ہے کہ تفسیر ہے کوئی اللہ کی طرف آئے تو پھر اللہ کی عنایتیں دیکھیں کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔