حرص و بخل

350

امر واقعہ ہے کہ جب کسی چیز کی محبت دل میں گھر کر لیتی ہے، تو اس کے ساتھ حرص و بخل دونوں (بظاہر متضاد) برائیاں اس کے دل میں پرورش پاتی ہیں اور یہ مال کی محبت او ر دیگر برائیو ں (بالخصوص حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی خلا ف ورزی) پر اْبھارتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے دل میں یہ خیال جم جاتا ہے کہ اگر جمع شدہ پونجی میں سے کچھ خرچ کرے گا تو اس میں کمی آجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس عمل کو ایک اعلیٰ درجے کی نیکی قرار دیا گیا ہے کہ مال کی شدید محبت وچاہت کے باوجود اسے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔
یہ آیت ایک بندئہ مومن کے اسی وصف ِ خاص کی ترجمان ہے: ’’اور وہ مال کی محبت کے باوجود اسے اہلِ قرابت، یتیموں اور غریبوں پر خرچ کرتا ہے‘‘۔ (البقرہ: 177) اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ملتی ہے جس میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ اجر کے اعتبار سے وہ صدقہ سب سے بڑا ہے کہ جسے کوئی اس حال میں کسی کو دے کہ وہ صحیح و تندرست ہو اور صدقے میں دینے والے مال کی حرص میں ڈوبا ہوا ہو اور بخل میں بھی اس بْری طرح مبتلا ہو کہ فقر کے ڈر سے مال نہ خرچ کرتا ہو اور زیادہ مال کا امیدوار یا خواہش مند ہو۔

سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک صحابی کے اس سوال پر کہ کون سا صدقہ اجر کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہے؟ کے جواب میں نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’تم صدقہ کرو اس حال میںکہ تم صحت مند ہو، (مال کے) حریص ہو، فقر سے خوف کھاتے ہو اور مال داری کے اْمیدوار یا خواہش مند ہو‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ)
حقیقت یہ کہ حرص ایسی بْر ی بلا ہے کہ وہ چین نہیں لینے دیتی۔ کچھ مال جمع ہوجانے اور اس کی لذت ملنے پر مزید کی طلب بھڑکتی رہتی ہے، پھر کچھ اور پونجی ہاتھ آگئی تو بھی اسے سکون نہیں ملتا اور نفس کی خواہشات کا تابع ہو کر وہ مزید کی طلب کا غلام بن جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و اسباب کی حرص اور انھیں بڑھانے کی شدید خواہش میں گرفتار شخص سوچتا رہتا ہے کہ فلاں کے پاس مال و دولت کا اتنا ڈھیر ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں تو ہم کیوں نہ بھاگ دوڑ کریں؟ جناب حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اسی صورتِ حال کی بہترین ترجمانی کررہا ہے ؎
بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی
تری دیوار سے اْونچی مری دیوار بنے