غازی شہزاد!!!کھیل تو چلتا رہے گا

470

راولاکوٹ ڈسٹرکٹ جیل سے بیس قیدیوں کے فرار کی تحیر وتجسس سے بھرپور کہانی صرف ایک فرد کے گر د گھوم رہی ہے اور وہ ہے پلندری کا غازی شہزاد۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی کہانی کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ قید سے فرار ہونے والوں میں جرم وسز کی زبان میں کئی ’’ہسٹری شیٹر‘‘ بھی ہیں قانون کے شکنجے میں پھنسے ہوئے بھی اور موت کے پھندے کے منتظر بھی مگر اس کے باوجود کہانی ایک عام سے سیاسی قیدی سے باہر نہیں نکل رہی۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جیل ٹوٹنے کے اس انداز کا مُوجب اور موجد غازی شہزاد ہے تو پھر غازی شہزاد کی ہسٹری نے ان تمام مفرور قیدیوں سے قطعی جدا ہے۔ یہ اس عہد کی کہانی ہے جب ریاست پاکستان جہادی نوجوانوں کو اثاثہ سمجھتی تھی اور ان کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ایک سادہ کاغذ یا سرکاری اہلکار کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کرکے ناکوں اور پھاٹکوں سے یوں گزر جایا کرتے تھے جیسے مکھن سے بال۔ تب ریاست ان انسانی اثاثوں کو سینت سینت کر رکھتی تھی اور ان کی ہر مشکل با آسانی حل ہوتی تھی۔ یہ ان انسانی اثاثوں کے بروئے کار آنے کا موسم تھا اور بروئے کار آنے والوں کے ناز اُٹھانا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ پھر موسم بدلا اور اثاثے بوجھ بنتے چلے گئے اور سارا منظر ہی بدل گیا۔ غازی شہزاد انہی اچھے موسموں کی یادگار ہیں۔ وہ ان موسموں کی تنہا نشانی نہیں بلکہ پوٹھوہار کی وسعتوں میں ایسے سرمائے کا ایک اتوار بازار سا لگا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر نامی گرامی ایک سے ایک بڑھ کر حکمت کار اور شجیع سب وقت کے عجائب خانے میں کسی اچھے موسم کے انتظار میں ضائع ہورہے ہیں۔
غازی شہزاد کا پروفائل بتاتا ہے کہ وہ پاکستانی فورسز کا باقاعدہ حصہ رہے۔ نوکری سے استعفا دے کر جہادی فورسز کے ساتھ شامل ہوئے۔ افغانستان میں لڑے اور پھر ایک روز کشمیر کی گھاٹیوں کو عبور کرتے ہوئے وادی میں داخل ہوئے اور لڑتے رہے۔ ان کی اپنی زبان سے کشمیریوں پر ہونے والے ستم کی کہانیاں سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔ جن میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے غازی شہزاد کو بتایا کہ کس طرح فوجیوں نے اس کی بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ کشمیر میں غازی شہزاد گرفتار ہوگیا اور آخر کار وہ پاک بھارت قیدیوں کے تبادلے میں واپس پاکستان آگیا اور یہاں ایک پریس کانفرنس میں جہادی غازی شہزاد کے خیالات پر کشمیری جذبات پر حاوی نظر آرہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ کشمیرکے زمینی حقائق اور حالات کے تقاضوں اور اسلام آباد اور مظفر آباد کی ڈھلمل پالیسیوں نے ایک نئے غازی شہزاد کی تراش خراش کر دی تھی۔ اب اس کے خیالات پر دوباتیں حاوی تھیں۔ اوّل یہ کہ پاکستان سے کسی ٹھوس اور بامعنی مدد کی امید بھی عبث ہے اور اس پر تکیہ کرنا خود فریبی ہے اس لیے کشمیریوں کو مدد کے لیے نئے معاون تلاش کرنے چاہیے جن میں چین، ایران اور افغانستان بھی ہو سکتے ہیں۔ دوم یہ کہ اب وہ ایک آزاد وخودمختار ریاست جموں وکشمیر کے حامی نظر آئے۔ وقت نے ایک جہادی کو اس مقام تک کیسے پہنچایا یہ ایک الگ داستان ہے۔
پانچ اگست 2019 کو نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کو ایک ایسے تابوت میں بند کر کے دریائے جہلم میں بہادیا۔ المیہ یہ کہ اس تابوت پر دوچار کیلیں ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی طرف سے بھی ٹھونک دی گئیں اور یوں اس تابوت پر متفقہ ہونے کی مہر ثبت کر دی گئی۔ اتنے بدتر حالات تو 1971 کے بعد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے جب پاکستان دولخت ہو چکا تھا اور جیل میں مقید کشمیری لیڈر شیخ محمد عبداللہ کو ان کے بیٹے فاروق عبداللہ کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان آپ کی مزید مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا اگر دہلی سے آپ کو بات چیت کی باعزت آفر آتی ہے تو اسے قبول کر لیں۔ جس کے بعد شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی میں ایکارڈ ہوا۔ اُدھر اس معاہدے پر دستخط ہوئے اِدھر اس عمل میں شریک نہ ہونے یا اسے تائید حاصل نہ ہونے اور کشمیریوں میں امید کو زندہ رکھنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور کشمیر میں عام ہڑتال کی اپیل کی اور یوں پاکستان اشاروں کنایوں کے باوجود اس سمجھوتے سے الگ ہوگیا۔ پانچ اگست کو تو خاموشی کی قبا پہن کر اور آزادکشمیر کے وزیر اعظم کو منظر سے غائب کرکے عملی طور پر تائید کی مہر ثبت کر دی گئی۔ وزیر اعظم پاکستان نے اگر احتجاج کا کوئی طریقہ اپنایا بھی تو اسے بھی میڈیا کے ذریعے غیر موثر کر دیا گیا۔ ان حالات میں غازی شہزاد جیسوں کی ذہنی کایا پلٹ جانا چنداں بے وجہ نہیں تھا۔
مودی نے یہیں بس نہیں کی بلکہ اسے کشمیر میں کسی مزاحمت کے احیاء کا امکان بھی آزادکشمیر میں دکھائی دیا تو اس کو ٹارگٹ کلنگ سے ختم کرنے کی حکمت عملی اپنائی جیسا کہ گزشتہ برس اسی راولاکوٹ کی ایک مسجد میں سابق جہادی ریاض المعروف ابوقاسم کشمیری کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس قتل کا سہولت کار بھی راولاکوٹ کی اسی جیل میں بند تھا مگر وہ فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جیل انتظامیہ کے بقول اس کے فرار کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا۔ اگر تو ابوقاسم کے قتل کا سہولت کار فرار ہونے والوں میں شامل ہوتا تو پھر کہانی ایک اور ہی رخ چل رہی ہوتی۔ تبصروں اور تجزیوں کا عنوان ہی قطعی مختلف ہوتا۔ غازی شہزاد کے فرار کی ڈور کا سرا ان کے اپنے خیالات کی ہی روشنی میں ہاتھ آسکتا ہے۔ حکام اور انتظامیہ کے پاس کہنے اور دینے کو خبر کے سوا کچھ نہیں۔ ہو بھی کیسے کھیل تو اب شروع ہورہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے لیے غیروں کے بنائے ہوئے جس تابوت کو اپنوں کی دوچار کیلیں ٹھونکنے کے بعد بہادیا گیا تھا وہ ایک فریق کا تنہا فیصلہ تھا۔ کشمیر کے تنازعے کے چند نمایاں فریقوں میں کشمیری عوام، بھارت اور پاکستان ہیں اور جغرافیائی قربت کے باعث چین بھی ایک طاقتور فریق ہے اور پانچ اگست کے بعد فریق کے طور پر چین پاکستان سے بھی بڑھ کر اپنا وجود منوا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک فریق نے اپنے تئیں ختم کر دیا ہے۔ تین فریق اپنے موقف پر قائم ہیں۔ یہاں ہمیں فلسطین کے بارے میں ہونے والے اوسلو معاہدے کو دیکھنا پڑتا ہے۔ جب اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابن اور فلسطین کے راہنما یاسر عرفات کے درمیان امریکی صدر بل کلنٹن کی سہولت کاری سے اوسلو معاہدہ ہوا۔ بظاہر یہ فلسطین کا دہائیوں سے جا ری کھیل ختم کرنے کی کوشش کی تھی مگر حقیقت میں کھیل تو اب شروع ہو رہا تھا۔ تنازع کا سب سے مرکزی کردار فلسطینی عوام جن کے مقبول جذبات کی ترجمانی حماس کر رہی تھی اس معاہدے کی مخالف تھی وہ اسے ایک لولی پاپ سمجھ رہے تھے۔ بہت سی علاقائی طاقتیں بھی اس عمل کی مخالف تھیں کیونکہ اس میں اسرائیل کے مفادات اور خواہشات کو غالب رکھا گیا تھا۔ بعد میں اوسلو معاہدے کا جو حشر ہوا دنیا آج تک دیکھ رہی ہے۔ نہ خوں ریزی ختم ہوئی نہ فلسطینیوں میں گر کر سنبھلنے کی تمنا کو قرار آیا۔ ایک تنازعے کے زندہ رہنے کے یہی محرکات ہوا کرتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر بھارت کے نقطہ نظر سے حل ہوچکا جو باقی حل طلب ہے آزادکشمیر کی صورت میں اسے بھی مودی آئے روز حل کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ ایسے میں کشمیر کی راکھ میں چنگاریاں موجود ہیں اور جو وقفے وقفے سے سلگتی رہیں گی۔ غازی شہزاد جیل کا پھاٹک توڑ کر نکلے ہیں تو یہ دوبارہ بند ہونے کی خاطر تو نہیں ہوا۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے یاسر عرفات کی طرح عالمی دبائو کا شکار ہو کر کشمیر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے تو کشمیریوں کے اندر کی چنگاریوں کو سلگنے سے روکنا تو ممکن نہیں اور ایسے لوگ آتے اور جاتے رہیں گے جو اپنی حمایت اور مدد کے لیے نئے ’’ایونیوز‘‘ تلاش کرتے اور ان کواڑوں پر دستک دیتے رہیں گے۔ خد اجانے غازی شہزاد اب کس بیاباں میں قلق میرٹھی کا یہ شعر گنگنا رہے ہوں گے۔
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی