جسارت سے جڑے پچیس سال ہورہے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہاں خواتین کے لیے علٰیحدہ کمرہ اور واش روم کا انتظام موجود نہ ہو۔ لیکن آج جب کہ جسارت ایک بہترین اور کشادہ اپنی عمارت میں منتقل ہوچکا ہے اور کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن وہاں خواتین کے لیے کوئی کمرہ نہیں اور نہ ہی علٰیحدہ واش روم کا انتظام کیا گیا ہے یہ بہت اجنبی اور تکلیف دہ صورت حال ہے۔ بہرحال اللہ جس طرح سے شر سے خیر نکالتا ہے اس صورت حال سے بھی نکلی ہے۔
ہوا یوں کہ ہم آفس جب بھی جاتے ہیں تو فرائی ڈے کے آفس میں بیٹھتے ہیں۔ جہاں کتابیں اور رسائل کے انبار ہیں، سو اپنے کام کے ساتھ انہیں بھی کھنگالتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہاں ایک رسالہ ’’حطین‘‘ نظر سے گزرا یہ شوال 1431ھ ہجری کا تھا۔ آج 25 ذوالحج 1445ھ ہجری ہے یعنی یہ کوئی چودہ سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس میں شیخ عبداللہ عزامؒ کی ایک قیمتی تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔ عنوان تھا ’’خلافت کن صفات کے حامل لوگوں کے ہاتھوں قائم ہوتی ہے؟‘‘
وہ لکھتے ہیں ’ایک دن سیدنا عمرؓ نے صحابہ رضوان اللہ سے فرمایا کہ تم میںسے ہر ایک اپنی تمنا بیان کرے تو ان میں سے ایک نے یہ تمنا کی کہ انہیں اتنا سونا مل جائے جس سے پورا گھر بھر جائے اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ دوسرے صحابی نے تمنا کی کہ انہیں اتنے غلام مل جائیں کہ جن سے پورا گھر بھر جائے اور انہیں اللہ کی راہ میں آزاد کریں۔ یوں اُن میں سے ہر ایک نے اپنی تمنا بیان کی پھر انہوں نے سیدنا عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ اپنی تمنا بیان فرمائیں۔
سیدنا عمرؓ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ مجھے ابوعبیدہؒ جیسے اتنے رجال کار مل جائیں جن سے پورا گھر بھر جائے (اور جن سے میں مسلمانوں کے اجتماعی امور میں مدد لوں) اس سے تربیت یافتہ رجال کار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ بلاشبہ تربیت کے مرحلے سے گزر کر تیار ہونے والی مضبوط بنیاد ہی آئندہ مراحل میں پورے دین کی اقامت اور پوری امت کے احیا کا بوجھ اُٹھاتی ہے۔
عبداللہ عزام اپنے قلم اور زبان سے امت کو بتاتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اقامت اور خلافت کے قیام کی اعلیٰ خدمت انہی لوگوں سے لیتے ہیں جو اپنے اندر مومنانہ صفات اور اسلامی سیرت و کردار زندہ کریں، اپنی تحریر میں وہ رسول اللہؐ کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ ’’تم انسانوں کو ان سو اونٹوں کی طرح پائو گے جن میں سے سواری کا بوجھ اٹھانے کے قابل کوئی ایک اونٹ بھی نہیں ملتا‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ آج بھی ہمیں کسی جم غفیر کی تلاش نہیں ہمیں تو ان چنیدہ لوگوں ہی کی تلاش ہے جو لاکھوں میں ایک ہیں لیکن اپنے کندھوں پر امت کے غموں کا بوجھ اُٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ جن کے قلوب اس دین کی فکر میں گھلتے ہیں جو مسلمانوں کی حالت زار سے بے چین ہو کر اپنے بستروں پر کروٹیں بدلتے ہیں، جو یہ سوچ کر ہی تڑپ اُٹھتے ہیں کہ آج دُنیا کے کتنے مختلف خطوں میں مسلمان بہنوں کی عصمتیں پامال کی جارہی ہیں، جو ان باتوں پر سوچتے ہیں کہ ان غموں کا مداوا کرنے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے میدان عمل کا رُخ کرتے ہیں۔
عبداللہ عزام لکھتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث کبھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ ’’تم انسانوں کو اُن سو اونٹوں کی طرح پائو گے جن میں سے سواری کا بوجھ اُٹھانے کے قابل کوئی ایک اونٹ بھی نہیں ملتا‘‘۔ یہاں تک کہ میں فلسطین اور افغانستان کے جہاد میں شریک ہوا اور اس حدیث کی عملی تشریح اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ واقعتا سیکڑوں انسانوں میں سے محض چند رجال کار اور مٹھی بھر مردِ میدان ہی برآمد ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہمیں دنیا میں دین اسلام کو غالب کرنا ہے کہ سب سے پہلے خود دینی تربیت پر عمل پیرا ہوں محبت و شفقت، عفو و درگزر کا معاملہ رکھیں۔ یاد رکھیں اپنے اردگرد موجود مسلمان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ آپ کے حسن معاملہ اور نیکی و بھلائی کے مستحق ہیں۔دینی تربیت یافتہ افراد کے ذریعے ہی وہ مضبوط بنیاد تیار ہوتی ہے جس پر پورا اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ آج خلافت کے قیام کے لیے یہی مضبوط بنیاد تیار کرنی ہے۔ان افراد کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے لیکن ان کے اعمال عظیم الشان اور وزنی ہوتے ہیں۔ جنہیں دشمن کے خلاف جنگ کے لیے پکارا جائے تو وہ سب بجلی کی سی سرعت کے ساتھ آپہنچیں اور غنیمت اکٹھا کرنے (فوائد کے حصول) کا مرحلہ آئے تو ان میں سے کم ہی کوئی موجود پایا جائے۔