کراچی (رپورٹ محمد انور) کراچی واٹر کارپوریشن کے واٹر اینڈ سیوریج پروجیکٹ پر اربوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود کراچی کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کے بنیادی کام پر کوئی بہتری نہیں لائے جاسکی بلکہ اب ساڑے 3 کروڑ عوام پانی کی قلت کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ واٹر کارپوریشن ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی بڑھانے اور ہائنڈرینٹس مسلسل 24 گھنٹے چلانے کے باوجود شہریوں کو ضرورت کے مطابق پانی فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ خیال رہے کہ شہر میں 650 ملین گیلن یومیہ پانی دریائے سندھ سے اور حب ڈیم سے شہر کو فراہم کیا جاتا ہے۔ واٹر کارپوریشن کے ذرائع کے مطابق فراہم کیے جانے والے پانی میں سے 25 فیصد ترسیل و تقسیم کے دوران عالمی نظام کے مطابق ضائع ہوجاتا ہے جسے بچانے کیلیے واٹر کارپوریشن کوئی اقدام نہیں کرتی ہے بلکہ اسے عالمی معیار سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حب ڈیم سے آنے والے 100 ملین گیلن یومیہ پانی سے بھی لاکھوں گیلن پانی ضائع ہوتا ہے جبکہ واٹر بورڈ کے صارفین کو اب واٹر ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں بھی پانی نہیں مل رہا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ 1 ہزار گیلن کا سرکاری ریٹ 1560 روپے ہے جبکہ ٹینکر مافیا 2500 سے لیکر 3000 روپے فی ٹینکر وصول کررہی ہے۔ اس معاملے پر ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیف آپریٹنگ آفیسر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر اور چیف آپریٹنگ آفیسر کے تقرر ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کے تحت ماہانہ 10 اور 12 لاکھ روپے کے عوض کیے گئے ہیں جبکہ انہیں رہائشی اور ٹی اے ڈی اے سمیت دیگر مراعات بھی دی جاتی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس قدر مراعات اور سہولیات کے باوجود عام صارفین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جارہا ہے جس کا صوبائی حکومت کو اور ورلڈ بینک کو نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورلڈ بینک کے پروجیکٹ کے تحت صارفین کو لائنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی کا نظام بہتر بنانا شامل ہے لیکن تاحال صارفین کو اس حوالے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے جبکہ واٹر کارپوریشن کے ماہانہ اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ اضافہ اتنا زیادہ ہے کہ ڈی ایم ڈی فائننس اور دیگر افسران اس اضافے کا مجموعہ حجم بتاتے ہوئے شرماتے ہیں اور کل اخراجات ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری طرف صارفین کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کے اصلاحاتی پروگرام کے باوجود عالمی ادارے کی معاونت 1.6 بلین ڈالر کے منصوبے کے تحت صارفین کو اب تک کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھی اس ضمن میں سخت نوٹس لینا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ واٹر کارپوریشن کے حکام دریائے سندھ سے گزشتہ 12 سال میں 650 ملین گیلن یومیہ کے حصول میں کوئی اضافہ نہ ہونا بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ K-4 پروجیکٹ کے تحت مزید 650 ملین گیلن یومیہ اضافے تک کراچی میں پانی کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے کہ پانی کی عدم فراہمی کے خلاف جماعت اسلامی کراچی گزشتہ ہفتے مسلسل احتجاجی دھرنوں کا اہتمام بھی کرتی رہی ہے۔