جعلی مزدور تنظیمیں۔ محنت کشوں کی دشمن

159

جہاں حکومتوں اور صنعت کاروں نے مزدوروں کے حقوق غصب کرکے ان کا جینا اجیرن کیا ہے وہاں نام نہاد مزدور تنظیمیں بھی اس استحصال کی ذمہ دار ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد مزدوروں کے حقوق کے لیے جو جو لیبر آرگنائزیشنز میدان میں آئیں۔ انہوں نے لیبر قوانین بنوائے، اور ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوشاں رہیں۔ مگر ان کے ساتھ ساتھ کچھ مفاد پرست عناصر بھی لیبر لیڈرز کے روپ میں میدان میں آگئے۔ اس جعلی لیڈرشپ نے حکومتی اداروں اور مالکان کے ساتھ ساز باز کرکے مزدور مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اور جب بھی کوئی قانون سازی ہوئی ان نام نہاد لیڈرز نے حکومتی اداروں اور صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ انہی جعلی لیڈرز نے حکومتی اداروں کی سفارشات پر بین الاقوامی فورم پر نمائندگی حاصل کی اور غیر ملکی NGOs سے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بے تحاشا فنڈز حاصل کیے اور ان حاصل شدہ فنڈز کا عشر عشیر بھی لیبر تک نہ پہنچ سکا۔ اس ماحول میں مزدور کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جبکہ ایسی تنظیمیں اور ان کے لیڈرز ترقیوں کی کئی منازل طے کرگئے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ٹھیکیداری نظام نے مزدور کی کمر توڑدی ہے۔ نجی کارخانوں اور اداروں میں انجمن سازی کو تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

پبلک سیکٹر اداروں میں لاتعداد قانونی موشگافیوں کی وجہ سے یونینز اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ لیبرز کے لیے حکومتی
فلاحی ادارے مزدوروں کی بہبود کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ لیبرز ڈیپارٹمنٹ اور اسی طرح کے دوسرے آئینی اداروں سے مزدور کے لیے انصاف کا حصول تقریباً ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ ان تمام حالات میں ILO کی چھتری تلے حکومت سندھ اور حکومت پنجاب نے ’’لیبر کوڈ‘‘ متعارف کرانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس میں رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ مگر صد شکر ہے کہ اس قحط الرجال کے دور میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان نے دوسری مزدور دوست تنظیموں سے رابطے کرکے اکٹھا کیا اور بھرپور طریقے سے اس لیبر کوڈ کو مسترد کردیا اور اپنی جہدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں ملک کے ساڑھے 7کروڑ مزدور حکومت سے یہ بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کی حقیقی لیبر تنظیم کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ متعلقہ فورمز پر بھی حقیقی مزدور قیادت کو نمائندگی دی جائے، ٹھیکیداری سسٹم کی ہر شکل کو ختم کیا جائے اور مزدوروں کو مستقل بنیادوں پر ملازمت دی جائے، مزدوروں کی فلاح و بہبود کے اداروں میں کرپشن کو ختم کیا جائے، لیبر کورٹس اور NIRC میں مزدوروں کو انصاف فراہم کرنے کے انقلابی اقدامات کیے جائیں، کم از کم ماہانہ اجرت 50ہزار کی جائے اور اس کا نفاذ بھی یقینی بنایا جائے، ہر ادارے میں یونین سازی کا حق دیا جائے۔ حکومت پاکستان نے جن بین الاقوامی کنوینشنز پر دستخط کیے ہوئے ہیں ان پر عمل درآمد کروایا جائے۔ مندرجہ بالا اقدامات سے مزدور خوشحال ہوگا اور جب مزدور خوشحال ہوگا تو ملکی صنعت ترقی کرے گی جس سے ملکی معیشت میں مثبت تبدیلی آئے گی۔