یہ قرضے معاف کرانے والے شرفا

399

گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی ہے کہ نوجوان کامیاب یوتھ لون پروگرام کے تحت قرضہ حاصل کر کے اپنے کاروبار کو فروغ دے کر ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دے رہے ہیں، مشکل معاشی صورتحال کے باوجود نوجوانوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہیں، نوجوانوں کے لیے گزشتہ قرضہ اسکیموں میں ریکوری کی شرح 99فی صد رہی، ماضی میں اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے گئے قرضہ اسکیم سے معیشت اور نوجوانوں کو فائدہ ہوا، کفایت شعاری فیصلوں پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم کا نوجوانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضہ اور طلبہ کے لیے لیب ٹاپ اسکیم کا اجرا قابل تحسین ہے تا ہم جہاں تک ماضی میں امرا اور اشرافیہ کی جانب سے قرضے معاف کروائے جانے کی بات وزیر اعظم کر رہے ہیں تو ان کی یہ بات درست ہے کہ نوجوان90 فی صد قرضے واپس کرتے ہیں جبکہ بڑے بڑے تاجر یہ قرضے معاف کروا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ملک کی معیشت کو آج اس نہج پر پہنچانے میں کلیدی کردار ان افراد کا ہے جو مکڑی کا جالا توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ چار دہائیوں سے عوام چند بڑے سیاسی گھرانوں اور بڑے کاروباری اداروں کے بینک قرضوں کی معافی کا بھگتان بھگت رہے ہیں۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت مخصوص افراد، گھرانوں یا کاروباری اداروں کے قرضوں کی معافی کا جنرل ضیا الحق کے دور اقتدار سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1999ء سے 2008ء کے درمیان 125 ارب روپے کے کمرشل قرضے معاف کروائے گئے، پاکستان میں جو قرضے سیاسی مصالحت کے باعث لیے جاتے ہیں ان کی بعد ازاں واپسی کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے لہٰذا یہ عام ڈیفالٹ ہے۔ 1980 اور 1990ء کی دہائی سے ہزاروں کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کے باعث قرضوں کا سود اور اصل زر بڑھتا گیا، بیش تر قرضوں کی وصولی ہی نہیں ہو پائی۔ قرضوں اور جرائم کی معافی سے عام پاکستانیوں سے زیادہ بااثر طبقہ مستفید ہوتا ہے اور اربوں روپے کے یہ قرضے جو سیاسی مصلحت یا اثر و نفوذ کے تحت جاری ہوتے ہیں اسی انداز میں معاف بھی ہو جاتے ہیں۔ غریب عوام کا پیسہ سیاست دانوں اور رئیسوں کو منتقل کرنے کا یہ طریقہ کار کسی المیے سے کم نہیں۔ چشم کشا اعدادو شمار کے مطابق 1971 سے 1991 تک 3.2 ارب روپے، 1991 سے 2009 تک 84.6 ارب روپے اور 2009 سے 2015 تک 345.4 ارب روپے معاف کروائے گئے۔ 1990 سے 2015 تک سینیٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق گزشتہ 25سال میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4 کھرب، 30 ارب 6 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں 19 کمپنیوں یا افراد نے ایک ارب روپے سے زائد کا قرضہ معاف کروایا جبکہ عدالتوں میں بھی بینکوں کی اِن زیادتیوں کی صدائے بازگشت سنی گئی۔ ایک طرف تو سنگ دِلی کا یہ عالم ہے کہ چند ہزار روپے کے ڈیفالٹر کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ دریا دلی کہ اربوں روپے کا قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قرض معاف کرنے کے یہ واقعات کسی ایک حکومت کے دورے سے تعلق نہیں رکھتے، ہر حکومت ایسی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف تو آئے ہی کرپشن ختم کرنے کے لیے تھے، لیکن جتنا لمبا اْن کا عہدِ حکومت تھا قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔ جب پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا اس وقت بھی قرضے پہلے سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر دیے جاتے تھے اور پھر ایسی ہی مصلحتوں کی بنا پر معاف بھی کر دیے جاتے تھے۔ اس وقت تو زیادہ تر بینکوں کا تعلق نجی شعبے سے ہے تاہم حکومتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر اب بھی قرضے معاف کرتی ہیں اور جن بینکوں کے حصص سرکاری ملکیت میں بھی ہیں وہاں تولوٹ مارمچی ہوئی ہے اور ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے بے قرار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بڑے مگر مچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں اور یہی نہیں کہ اربوں کھربوں کے قرضے لینے والے قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں بلکہ اگر یہ گرفتار ہو بھی جائیں تو انہیں پورے پروٹو کول کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس غریب عوام جو ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لیتے ہیں اگر وہ معمولی قرض بروقت ادا نہ کر سکیں تو ان کی جائدادیں قرق کی جاتی ہیں اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ان بااثر افراد کا بھی محاسبہ کیا جانا چاہیے جو قرضوں کی معافی کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں وزیر اعظم کو اس جانب بھی توجہ کرنی چاہیے تا کہ قرضے معاف کروانے کا یہ سلسلہ بند ہو اور معیشت پر بالواسطہ لگنے والی ان کاری ضربوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ بھاری سودی قرضوں میں ڈوبی عوام اور مہنگائی کی چکی میں پستے غریب عوام کی حالت زار پر اب رحم کیا جانا چاہیے اور بڑے بڑے صنعت کاروں،
ملز مالکان اور سیاستدانوں سے بھی قرضوں کی وصولی کر کے قومی خزانے میں جمع کی جائے۔ محض عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں نا قابل برداشت اضافے کے بجائے اس طرز پر ملکی دولت لوٹنے والوں کا بھی احتساب کیا جانا چاہیے تا کہ غیر ملکی بھاری سودی قرضوں سے قوم کو نجات دلائی جائے۔ آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود، ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ سب کے لیے برابر نہیں، جبکہ آئین کے تمام آرٹیکل ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟ صد افسوس پاکستان میں بڑے مگر مچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ آرٹیکل 52 واضع کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قرضے معاف کرانے والے شْرفا کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اْٹھائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھے کے یہ کون سے شْرفا ہیں جو اربوں روپے لے کر بیرونی بینکوں میںچھپائے بیٹھے ہیں۔