کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم

340

شہر قائد کراچی، جو کسی وقت دنیا میں تجارتی مرکز کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ ترقی و خوشحالی اس شہر کا ماٹو تھا مگر اس شہر کو ایسی بد نظری اور دشمن کی سازش نے کھایا جس کے اثرات تاحال بکھرے پڑے ہیں۔ چین و سکون اس شہر کے باسیوں کے لیے مفقود ہو چکا ہے۔ درمیان میں تھوڑے عرصہ تک جرائم کی شرح میں کچھ کمی واقع بھی ہوئی تو دوبارہ زیادہ زور آور بن کر یہ جن بوتل سے باہر نکلا۔ موجودہ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ دن دہاڑے وارداتیں ہو رہی ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کی صورتحال اب قابو سے باہر ہے۔ بے لگام ڈاکوؤں اور اسٹریٹ مجرموں نے شہریوں کے ذہنی سکون کو تباہ کر رکھا ہے۔ شہر میں خوف کا عالم چھا چکا ہے۔ جیسے اتقا معین کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ گلشن اقبال میں رہنے والے 27 سالہ اتقا معین گولڈ میڈلسٹ کیمیکل انجینئر تھے۔ حافظ قرآن اتقا معین ایک پرامن شہری تھے۔ 2023ء میں ہی اس کی شادی ہوئی۔ بیچارہ بیکری سے سامان لے کر واپس گھر آ رہا تھا کہ راستے میں ڈاکوؤں نے روک لیا۔ اتقا اپنی جان بچانے کے لیے موٹر سائیکل سے اتر کر کار کے پیچھے چھپ گیا مگر سنگ دل ڈاکوؤں نے کار کے پیچھے جا کر موبائل فون اور نقدی چھیننے اور گولی مار کر موٹر سائیکل بھی لے کر فرار ہو گئے۔ ایسے ہی گلشن معمار میں امجد نامی نوجوان بینک سے رقم لے کر نکلا۔ ڈاکو جو اس کی تاک میں تھے انہوں نے اسے گولیاں مار دی اور رقم چھین کر بھاگ گئے۔ شدید زخمی امجد اسپتال جا کر دم توڑ گیا۔ کورنگی میں پرانے جوتے فروش سے ڈاکوؤں نے سب کچھ چھین کر شہید کر دیا۔ اتقا معین کی شہادت کے دو روز بعد ہی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا صنعت کار جو بینک سے 10 لاکھ روپیہ نکلوا کر اپنی گاڑی میں جا رہا تھا، ڈاکوؤں نے گاڑی پر ہی فائرنگ کر دی۔

اب تو سفاکی کا یہ عالم ہے کہ یہ معصوم شہری ڈاکوؤں کے سامنے چاہے مزاحمت نہ بھی کریں یہ سنگ دل ڈاکو انسانوں کو جان سے مارنا اپنا شغل میلہ سمجھتے ہیں۔ معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنا ان کے لیے کوئی مشکل ہی نہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق 2023ء میں ہی کراچی میں 4470 اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہو چکی ہیں جن میں 108 معصوم نوجوانوں کی جانیں بھی لی گئی بلکہ 2024ء کے چند ماہ میں ہی تقریباً 73 نوجوانوں کی زندگیاں ختم کی گئی۔

شکار اگر زیادہ تر نوجوان ہیں تو مجرم بھی نوجوان ہی نظر آ رہے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں آنے کی مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو ان کو بچپن ہی میں جرم سے بھرا ماحول ملنا ہے کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی ذہن عام طور پر منفیت کا اثر جلدی قبول کرتا ہے لاشعوری میں دیکھی گئی اور سنی گئی چیزیں دماغوں میں محفوظ ہو جاتیں ہیں، پھر جب معاشرے کے یہ کم پڑھے لکھے اور کچے ذہن کے نوجوان گلیمر اور چمکتی دنیا دیکھ کر یک لخت اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کے حصول کے لیے جب کوئی مثبت راستہ نظر نہیں آتا تو جلد حاصل کرنے کی کوشش میں اپنے سفلی جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نوجوان جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے بھی چھوٹی عمر میں ان کی تربیت درست خطوط پر نہیں کی ہوتی۔ برائی کی کراہت اور اچھائی کے حسن کے درمیان تمیز نہیں سکھائی ہوتی۔ انہیں تعلیمی میدان میں بھی کوئی مثبت رول ادا کرنے میں دلچسپی نہیں ہوتی اور ناقص، بے معنی مصروفیات میں پڑ کر اپنا زیادہ وقت مثبت سرگرمیوں کے بجائے منفی سرگرمیوں میں گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح جرائم کی دنیا میں کم پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر نوجوان بھی نظر آرہے ہیں جس کی وجہ انہیں روزگار نہ ملنا اور معاشی دباؤ ہے۔ ان پڑھے لکھے، بے روزگار نوجوانوں میں بے جا خواہشات کا بہت زیادہ بڑھ جانا اور تکمیل کے لیے پاس کچھ نہ ہونا بھی انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتا ہے اور یہ نوجوان جرائم کو دولت حاصل کرنے کا آسان اور شارٹ کٹ راستہ سمجھ کر اس تباہی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان کی خواہشات بے حسی کا لبادہ اوڑھ کر ان کے دماغوں پر ایسی چھا جاتیں ہیں کہ لوٹ مار کے راستے میں انسانی زندگی کا ضیاع بھی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اس سلسلے میں جہاں ایک طرف معاشرہ قصوروار ہے، گھریلو تربیت قصوروار ہے وہاں ہماری حکومت اور ادارے بھی قصوروار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو کاغذی ڈگریاں تھمانے کے بجائے ہنر کی ڈگریاں تھمائی جائیں تاکہ نوجوان نہ بے روزگار ہوں اور نہ ہی فارغ کہ ان کی فراغت انہیں منفی سرگرمیوں کی طرف لے کر جائے۔ گورنمنٹ زیادہ انڈسٹریز لگائے جہاں ہر طرح کا تعلیمی معیار رکھنے والوں کو نوکریاں مل جائیں۔ پولیس اور عدالتیں اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں کیونکہ جہاں بھی جرائم کے اڈے موجود ہیں پولیس اکثر ان سے آگاہ ہوتی ہے۔ کراچی میں جرائم کے تدراک کے لیے رینجرز بھی موجود ہیں، دیگر علاقوں میں محافظ فورس اور ڈولفن فورسز بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی اسٹریٹ کرائم کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہ مجرم پکڑے بھی جائیں تو پولیس والے عدالت جانے کی کم ہی نوبت آنے دیتے ہیں، خود ہی مک مکا کر لیتے ہیں لیکن اگر کبھی عدالت جانے کی نوبت آ بھی جائے تو عدالت کیس کو جلد نپٹانے اور مجرموں کو سزا دینے کے بجائے معاملے کو مزید طول دیتی ہے اس لیے لوگ تھانے، کچہریوں کے چکروں سے ڈرتے ہیں اور خواری سے بچنے کے لیے 70 فی صد متاثرین تو رپورٹ ہی نہیں لکھواتے مگر جو لوگ تھانے میں رپورٹ درج کروا دیتے ہیں وہ بھی رشوت اور بے مقصد چکروں سے گھبرا کر بلا آخر خاموش ہی ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے کو خوف و ہراس سے امن و امان میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے گھروں اور اداروں، دونوں کو اپنی ذمہ داری پہچان کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ محافظ اداروں کو مجرموں کے خلاف سخت ایکشن لے کر، انہیں سخت سزائیں دے کر، ان مجرمین کو زمانے کے لیے نشان عبرت بنانا ہوگا تاکہ دوسرے شر پسند ذہن رکھنے والے لوگ بھی چوکنا ہو جائیں اور جرم کرنے، کسی کو تکلیف دینے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔