اسلام آباد ( رپورٹ:میاں منیر احمد) ملک کو ایک نئے فوجی آپریشن کی ضرورت ہے یا سیاسی استحکام کی؟ جسارت کے اس سوال کے جواب میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے علاوہ جے یو آئی کے رہنمائوں نے فوجی آپریشن کو یکسر مسترد کیا اور کہا کہ بتائیں ماضی میں مختلف ناموں سے قبائل میں آپریشن ہوئے تو دہشت گردی ختم ہوئی؟ وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تاڑر نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے دہشت گردی کے خلاف ’آپریشن عزم استحکام‘ کی منظوری دے دی وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس کے دوران نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کردی گئی ہے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وژن کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، آپریشن عزم استحکام کو غلط سمجھا جا رہا ہے، عزم استحکام کا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب، راہ نجات وغیرہ سے کیا جا رہا ہے، گزشتہ مسلح آپریشنز نوگو ایریاز اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے علاقوں میں کیا گیا، اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگو ایریاز نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو ، عزم استحکام کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے، عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سیکورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پذیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے تحریک انصاف اس آپریشن کی حمایت کرتیہے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے آپریشن عزم استحکام کی بالکل حامی نہیں بھری، صرف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی بات کی تھی علی امین گنڈاپور نے متعلقہ اجلاس میں آپریشن کی مخالفت کی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ استحکام کے لیے ملک آپریشن کا متحمل نہیں ہوسکتا، استحکام اور آپریشن 2 الگ الگ چیزیں ہیں، استحکام کے لیے قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، جبکہ پارلیمان میں ان لوگوں کو حق دیا جائے جو حقدار ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ عوام کی منظوری کے بغیر خیبر پختونخوا میں کوئی آپریشن نہیں ہوگاآرمی چیف، ڈی جی آئی ایس پی آر پارلیمنٹ میں آکر بریفنگ دیں، آپریشن پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے واضح کیا ہے کہ کسی آپریشن کی منظوری نہیں دی، بانی پی ٹی آئی ہی آپریشن کا حتمی فیصلہ کریں گے۔آپریشن عزم استحکام کی پی ٹی آئی، جے یو آئی ف اور اے این پی نے مخالفت کی ہے۔مولانا فضل الرحمن آپریشن عزم استحکام کو آپریشن عدم استحکام قرار دے چکے ہیں آپریشن سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا، آپریشن کا فیصلہ کوئی اور کرے گا اور ذمے داری سیاسی جماعتیں اٹھائیں گی‘تحریک انصاف کے رہنماافتخار چودھری نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے آپریشن عزم استحکام کے معاملے پر جرگہ بلایا جائے گا پشاور میں خیبرپختونخوا بھر سے عمائدین کے ساتھ جرگہ ہوگا، جس میں آپریشن عزم استحکام سے متعلق قرارداد پیش کی جائے گی قرارداد کی منظوری کے بعد سفارشات کی روشنی میں پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھایا جائے گا جرگے کے فیصلے قرار داد کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیے جائیں گے‘جے یوآئی کے رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کا قد کاٹھ اتنا نہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے بیان کو سیاسی قرار دیں۔خواجہ آصف بتائیں ماضی میں مختلف ناموں سے قبائل میں آپریشن ہوئے تو دہشت گردی ختم ہوئی؟انہوںنے استفسار کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے افغانستان سے بات چیت کے بجائے طاقت کے استعمال کو کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟ان کاکہنا ہے کہ صرف2 صوبوں میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔یہ آپریشن سندھ کے کچے کے ڈاکوؤں اور پنجابی طالبان کے خلاف کیوں نہیں ہوتے؟