آپریشن عزم استحکام ابھی خدوخال اُبھرنے اور نین نقش سنورنے کے ہی مرحلے میں ہے کہ ملک میں اختلافات اور مخالفانہ ردعمل کے بلند ہونے والے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ابھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ کوئی باقاعدہ اور بھرپور فوجی آپریشن ہے یا ملک میں جاری روایتی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی یا پھر محض ذہن سازی کی ایک تشہیری مہم؟ خدوخال کی تیاری کے اسی مرحلے پر اس آپریشن کی حقیقت اور وجود اور اہداف سب کچھ سوالیہ نشان بن گیا۔ اس کنفیوژن کو وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ یہ کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ ’’انٹیلی جنس بیسڈ‘‘ یعنی خفیہ معلومات کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی ہے۔ اگر تو یہ واقعی خفیہ معلومات کی بنا پر ہدف حاصل کرنے والا آپریشن ہے تو پھر اس طرح کی سرگرمیاں ملک میں سارا سال ہی جاری رہتی ہیں۔ جہاں کہیں دہشت گردی کے سلیپر سیل یا کسی نیٹ ورک کی اطلاع ملتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے آگے بڑھ کر کارروائی کرتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ تشہیری مہم کا ہے جس میں جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے عوام کو کسی بھی مہم میں ریاست کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس اُجاگر کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی ہو یا کرپشن عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ فوجی آپریشن ان دونوں باتوں سے یکسر الگ معاملے کا نام ہے۔ یہ ایک قصہ ٔ درد کا عنوان ہوتا ہے۔ جس میں اوّل وآخر دردناک کہانیاں جنم لیتی ہیں تب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ آخری فتح کا سیندور ریاست کی مانگ میں سجنے پائے گا بھی یا نہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور کے فوجی آپریشنوں کے زخم اب بھی رس رہے ہیں۔ ایک کہانی سے سو افسانے جنم لیے ہوئے ہے۔ ایک نسل نے پناہ گزین کیمپوں میں آنکھ کھولی۔ ایک نسل نے اپنے گھروں کو کھنڈرات میں بدلا ہوا دیکھا، اپنی گلیوں کو ویران اور اپنے کھیل کے میدانوں کو قبرستانوں میں ڈھلتے دیکھا۔ برسوں گزر گئے مگر آج بھی مسائل ناسور بن کر رس رہے ہیں۔ فوجی آپریشن اپنے ساتھ ایک پورا کلچر لاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دلدل ہوتی ہے جس سے چاہتے ہوئے بھی واپس نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا قدم دلدل میں دھنسنے کا باعث بنتا ہے۔ پھر زخموں کے اندمال کا مرحلہ آتا ہے۔ جو زخم اپنے ہی ہاتھوں سے لگائے ہوتے ہیں انہیں اپنے ہی ہاتھوں سے رفو کرنے کا جبر سہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک طویل المیعاد عمل ہوتا ہے جس میں حالات کا شکار بننے والے مسائل کی پرپیچ راہوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہونے والے آپریشنز کے پیچھے امریکا کا دبائو تھا کیونکہ امریکا افغانستان کی جنگ کو پاکستان تک پھیلاکر اس کا حل نکالنا چاہتا تھا۔ اسی لیے لال مسجد جیسے سیدھے سادے واقعات کو اُلجھا کر مکمل فوجی آپریشن کا ماحول بنا دیا گیا۔ اس وقت یہ تاثر عام تھا کہ اگر تھانہ آبپارہ کے ایک دیانت دار پولیس افسر کو معاملہ نمٹانے دیا جائے تو چند دن میں مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے مگر نومولود الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے آپریشن کا ماحول بنا کر جنرل مشرف اور غازی برداران دونوں کو اپنی اپنی اناؤں کی بند گلی میں لاکھڑا کیا گیا اور اس کے بعد دہشت گردی پاکستان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ انہیں اپنی طاقت کے مجتمع کرنے اور اس کے اظہار کے لیے شہید، دردناک کہانیاں بھی ملیں اور مسجد کی شکستہ اور سوختہ دیواریں بھی دستیاب ہو گئیں۔
نیک محمد کے ساتھ دہشت گردی کے دیسی حل پر جب اتفاق رائے ہوگیا تو اچانک ایک ڈرون نے نیک محمد کو نشانہ بنایا اور معاہدہ ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا اور ریاست دہشت گردانہ حملوں کے قہر وغضب کا نشانہ بن کر رہ گئی۔ بالادست طبقات تو بالابالا ہی رہے خودکش حملوں کا شکار زمین پر رینگنے والے انسان بنتے چلے گئے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا خطرہ برقرار رکھنا اور افغانستان کی جانب سے بحال رکھنا امریکا کی ضرورت ہے۔ اس کا اصل مقصد پاکستان کے مشرقی ہمسائے کو آزادانہ ماحول فراہم کرنا اور مغربی ہمسائے کو ہمہ وقت مشتعل اور مضطرب رکھنا ہے۔ مشرق کی طرف امریکا کے مقاصد کچھ اور ہیں اور مغرب کی سمت مقاصد قطعی جداگانہ ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ٔ چین کے بعد اس تاثر کے ساتھ فوجی آپریشن کی باتیں ہونے لگیں کہ چین کی فرمائش پر اور سی پیک کو تحفظ دینے کے لیے ایک عدد فوجی آپریشن ناگزیر ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہائوس کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا دہشت گردی سے نمٹنے میں امریکا اور پاکستان دونوں کا مفاد ہے۔ اصولی طور پر تو میتھیو ملر کا کہنا درست ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنا سب کے مفاد میں ہے مگر انہوں نے اس میں چین کو شامل نہیں کیا۔ یوں بالواسطہ طور پر کسی نئے فوجی آپریشن کے تصور کو اوونر شپ دی گئی۔ اب یہ سوال اُٹھنا لازم ہے کہ فوجی آپریشن چین کی فرمائش پر ہو رہا ہے یا امریکا کے حکم پر؟ ہر دو صورتوں میں معاملے کی نوعیت مختلف ہے۔ امریکا کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک ایسی دہشت گردی سے پاکستان کی جان چھڑائے جس کا سب بڑا ہدف ہی پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ امریکا تو اس منصوبے کا ازلی مخالف ہے اور بھارت سے اس کی معمول کی دوستی کے تزویراتی شراکت داری میں ڈھلنے کی ایک وجہ سی پیک کی مخالفت کامشترکہ ہدف بھی ہے۔ اگر معاملہ چین کی فرمائش کا ہے تو پھر آج چین طالبان کے ساتھ شیر وشکر ہے۔ چین افغانستان میں بھاری سرمایہ کا ری کر رہا ہے اور مجال ہے کہ افغانستان میں بیٹھی ٹی ٹی پی وہاں کسی ایک منصوبے کو ہدف بنائے یا کسی چینی کارکن پر خودکش حملہ کرے۔ چین ان افغان طالبان پر کیوں مہربان ہے جو سی پیک کی صورت میں صرف پاکستان میں اس کی سرمایہ کاری کو تباہ کرنے والی تحریک طالبان پاکستان کے میزبان بنے بیٹھے ہیں۔ یوں یہ پیاز کی طرح پرت درپرت کھیل ہے جس میں ایک پرت کو دیکھ کر معاملے کی نوعیت کو سمجھا نہیں جا سکتا ایسے پرپیچ معاملات میں آپریشن واحد آپشن نہ رہیں تو اچھا ہے۔