میانمر کی اندرونی لڑائی

237

میانمر (برما) میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ وہاں فوج نے فروری 2021 میں بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ تب ایسا لگ رہا تھا کہ فوجی حکومت روس سے ملنے والے جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے انتہائی طاقتور ہوکر ہر طرح کی مزاحمت کو کچل کر رکھ دے گی اور یہ کہ فوج کا اقتدار طویل مدت تک برقرار رہے گا۔ فوجی حکومت کو جس مزاحمت کا سامنا رہا ہے وہ اپنے اقتدار کے لیے لڑنے والی نسلی و لسانی تنظیموں کے اتحاد اور نوجوانوں پر مشتمل نئی تنظیموں کی طرف سے ہے۔ یہ نوجوان مستقبل سے مایوس ہوکر اب ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں۔

ابتدار میں معاملات مزاحمتی تحریک کے لیے بہت اچھے نہیں تھے۔ تب فوجی حکومت جنگی جرائم کی پروا کیے بغیر دیہات پر بھی گولا باری کرتی رہی تھی۔ مزاحمت کو کچلنے کے معاملے میں بمباری سے بھی بہت کام لیا جاتا رہا۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ دو سال کے دوران زمینی لڑائی میں غیر معمولی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ فوجی حکومت کا زور ٹوٹتا جارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فوج یہ جنگ ہار جائے یا پھر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار بیٹھے۔

میانمر کی فوج میں اندرونی سطح پر اچھی خاصی شکست و ریخت واقع ہوچکی ہے۔ نچلی سطح کے فوجیوں کی ہلاکت کا گراف خطرناک حد تک بلند ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں فوج کی صفوں میں انتشار در آیا ہے۔ بہت سے فوجیوں نے فوج سے وابستگی ترک کردی ہے اور اُن کی جگہ بھرتیاں بھی نہیں کی گئی ہیں۔ فوج نوجوانوں کو فوج میں خدمات انجام دینے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ میانمر کے بیش تر نوجوان ملک سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔

لائف لائن بھی کمزور پڑچکی ہے۔ میانمر کی فوجی حکومت کو مالی امداد اور ہتھیاروں کے معاملے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ روس سب سے بڑا سہارا رہا ہے مگر اب وہ خود یوکرین میں الجھا ہوا ہے اس لیے میانمر پر متوجہ ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔ روس کی طرف سے ہتھیار مل رہے ہیں نہ مالی امداد۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میانمر کی فوجی حکومت نے شمالی کوریا کی طرف جُھکنے کو ترجیح دی ہے مگر خیر شمالی کوریا کو روس کا مکمل نعم البدل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

مزاحمتی قوتیں فوج سے لڑائی کے دوران مختلف محاذوں پر فتح کی صورت میں اس سے ہتھیار بھی چھین رہی ہیں۔ ان قوتوں کو امریکا اور دیگر ممالک سے بھی اخلاقی نوعیت کی مدد حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں اُن کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چین نے میانمر کی فوجی حکومت کی تکنیکی معاونت جاری رکھی ہے تاہم وہ خود بھی نہیں جانتا کہ یہ حکومت کب تک برقرار رہے پائے گی اس لیے اب اُس نے میانمر کی مزاحمتی قوتوں سے بات چیت شروع کردی ہے۔

ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میانمر کو جن ممالک سے فوجی اور مالی امداد ملتی رہی ہے اُن کے خلاف امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں سے اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ یہ ممالک اب میانمر کی زیادہ مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اپوزیشن کی مزاحمتی قوتوں نے تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھانا شروع کردیا ہے۔ جہاں جہاں فوج کمزور پڑ رہی ہے وہاں اپوزیشن کی قوتیں اپنا سکہ جمارہی ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت میانمر کا 60 فی صد رقبہ حکومت مخالف مزاحمتی قوتوں کے کنٹرول میں ہے۔ ایک سال کے دوران مزاحمتی قوتوں نے ملک کے شمالی، شمال مشرقی اور مغربی حصوں پر اپنا بھرپور تسلط جمایا ہے۔ بہت سے علاقوں میں فوج کے پاس اِتنا راشن بھی نہیں کہ اپنے سپاہیوں کو ڈھنگ سے کِھلا سکے۔ یہی سبب ہے کہ فوج سے وابستگی ترک کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ میانمر کا مرکزی حصہ اب تک بہت مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ فوجی حکومت کے لیے یہ گڑھ ہے اور جدید ترین ہتھیاروں سے بیش تر حکومتی عمارتوں کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب مزاحمتی قوتوں نے وسطی میانمر کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ وہ وہاں چوٹ مارنا چاہتی ہیں جہاں زیادہ تکلیف محسوس ہو۔

مزاحمتی قوتوں نے فوج کے دارالحکومت نیپیڈا پر بھی حملہ کیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیںکہ مزاحمتی قوتیں اب فوج کے ایک اور مضبوط گڑھ منڈالے کو بھی نشانہ بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کی مزاحمتی قوتیں پہلے چھاپا مار جنگ کو ترجیح دیتی تھیں مگر اب انہوں نے کئی علاقوں میں فوج سے براہِ راست ٹکرانے کو بھی ترجیح دی ہے۔ کئی کُھلے معرکوں میں فوج کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

میانمر میں اندرونی جنگ ختم تو نہیں ہوئی مگر یہ ماننا پڑے گا کہ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ فوجی حکومت کے لیے امکانات کمزور پڑتے جارہے ہیں۔ میانمر پہلے ہی ایک ناکام ریاست ہے۔ اس کی معیشت ناکارہ ہوچکی ہے۔ اندرونی سطح پر نقل ِ مکانی کا رجحان زور پکڑتا جارہا ہے۔ چند قدرے مضبوط اور خوش حال علاقوں پر آبادی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ معاشرتی بہبود کا نظام دم توڑ چکا ہے۔ علاقائی اور دیگر ممالک کو میانمر میں فوجی حکومت کے مکمل خاتمے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بہت سے فوجی پہلے ہی ملک سے فرار ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ وقت انتظار کرنے اور تماشا دیکھنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھ کر چند ایک تیاریاں کرنے کا ہے تاکہ جب فوجی حکومت ختم ہو تو زیادہ بگاڑ پیدا نہ ہو۔ فوجی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کی صورت میں مزاحمتی قوتوں کے دوران اقتدار کی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ملک مزید عدمِ استحکام کی طرف جائے گا۔

(دی گلوبلسٹ ڈاٹ کام کے لیے یہ مضمون جوشوآ کُرلانزِک نے تحریر کیا ہے۔)