متاثرین تشدد کا عالمی دن اور کشمیری متاثرین کی حالت زار

376

26 جون کو تشدد کے متاثرین کی حمایت میں اقوام متحدہ کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، یہ دن دنیا بھر میں تشدد کی لعنت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے، اس سے چھٹکارا پانے اور متاثرین تشدد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وقف کیا گیا ہے، اور یہ دن تشدد، ظلم و جبر، غیر انسانی، اور توہین آمیز سلوک کے خاتمے اور متاثرین کے لیے انصاف اور مدد کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے عزم کی یاد دہانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

کشمیر ایک ایسا بد نصیب خطہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازعے کا شکار ہے۔ 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے ساتھ شروع ہونے والا تنازع کشمیر متعدد جنگوں، اور کرہ ارض پر بھاری فوجی موجودگی کا باعث بنا۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گڑھ بن چکا ہے، اور وہاں کے باشندوں کو عرصہ دراز سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں جسمانی تشدد اور خواتین کی بے حرمتی نمایاں مسئلے ہیں۔

متعدد بین الاقوامی اور مقامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جموں کشمیر میں تشدد کے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے ان رپورٹوں میں جسمانی استحصال، نفسیاتی تشدد اور جنسی تشدد کے خوفناک واقعات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ متاثرین کے ساتھ غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے، انسانیت سوز مظالم، پر تشدد مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے، مرچ اور نمک پاشی کی ویڈیوز اب بھی انٹرنیٹ کی زینت بنے ہوئے ہیں جو دیرپا جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا باعث بنی ہوئی ہیں، بھارتی افواج کے بدترین تشدد کے نتیجے میں اکثر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور جو بچ گئے وہ دائمی مرض، تکلیف، اور ذہنی ڈپریشن کے شکار ہوچکے ہیں۔

عالمی برادری بارہا کشمیر میں تشدد کے خاتمے اور ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ کرچکی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات پر عمل پیرا ہونے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے، اقوام متحدہ کے مختلف اداروں نے بھی وقتاً فوقتاً بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ جموں کشمیر میں تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے لیکن بھارتی حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی اور انہوں نے جموں کشمیر میں دس لاکھ سے زائد افواج کو کشمیریوں پر ظلم و جبر، تشدد اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ عالمی اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں، 7400 ماورائے عدالت قتل اور بھارتی افواج کے پیلٹ گنز کے استعمال سے 300 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری بچے بھارتی فوج کے ہاتھوں یتیم ہوچکے ہیں، 13 ہزار خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں، کنن پوش پورہ، سوپور، کپواڑہ، ہندواڑہ اور شوپیاں کے ہزاروں متاثرین خواتین عالم انصاف کے اداروں کے توجہ کے اب بھی منتظر ہیں۔ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والوں کو یا تو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جاتا ہے یا انہیں جعلی مقدمات میں پھنسا کر جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر موت و حیات کے رحم و کرم کے سپرد کیا جاتا ہے، خرم پرویز سمیت ذرائع ابلاغ کے بیسویں نمائندوں کو جموں کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کو دنیا کے سامنے لانے پر پابند سلاسل کردیا گیا ہے، کشمیریوں کو سوشل میڈیا پر داستان غم لانے پر بھارتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، الغرض بھارتی حکمرانوں نے جموں کشمیر میں آزادی اظہار رائے پر سخت گیر پابندیاں عائد کی ہوئیں ہیں جس کی وجہ سے جموں کشمیر میں قبرستان جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ، تشدد کے خلاف کنونشن کے تناظر میں، تشدد کو روکنے اور متاثرین کی مدد کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ تشدد پر اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ الزامات کی تحقیقات اور بین الاقوامی معیارات کی پابندی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے لیکن یہ ادراہ بھی جموں کشمیر میں بھارتی تشدد کو روکنے کے لیے معتبر اقدامات لینے سے کتراتا ہے۔ جب دنیا تشدد کے متاثرین کی حمایت کا عالمی دن مناتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ کشمیری متاثرین کی حالت زار کی طرف توجہ دی جائے۔ بیداری پیدا کرنا، پالیسی میں تبدیلیوں کی وکالت کرنا، اور تشدد سے بچ جانے والوں کی مدد کرنا، انصاف اور متاثرین کے ریلیف کو یقینی بنانے کے لیے اگر موثر اقدامات نہ اٹھائیں جائیں تو عالمی سطح پر دنوں کو مخصوص کرنا اور ذیلی اداروں کی اہمیت اور افادیت سوالیہ نشان بن جاتی ہیں، اور ایسے ادارے عوامی اعتبار کھو جاتے ہیں۔ بہر کیف تشدد کے خلاف جنگ جاری ہے اور تشدد کے وسیع تر مسائل کو اجاگر کرکے عالمی برادری کو تشدد سے پاک دنیا قائم کرنے کوششیں جاری رکھنی چاہیے تاکہ انسانیت پر موجود تشدد کا دھبہ دھل سکے۔