قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے۔ کیا تم گمان کرتے ہو جنت میں یونہی داخل کردیے جاؤ گے حالانکہ تم پر ابھی تک وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے انہیں دکھ اور تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وقت کے رسول اور ان کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے اللہ کی مدد کب آئے گی۔ جوا ب آیا خبردار اللہ کی مدد قریب ہے۔ (سورۃ بقرۃ آیت 214) امت محمدیہ کی وہ عظیم ہستی جن کو اللہ تعالیٰ نے مصائب و مشکلات میں مبتلا کرنے کے بعد شہادت کے عظیم ترین مرتبے پر فائز فرمایا وہ سیدنا عثمان غنیؓ ہیں جو مسلمانوں کے خلیفہ سوم داماد پیغمبر ذوالنورین روم وقسطنطنیہ کے فاتح، بحری جہاد کے بانی چالیس لاکھ مربع میل پر پرچم اسلام لہرانے والی عظیم شخصیت ہیں وہ سابقین اولین صحابہ کرام میں شامل ہیں جو پہلے پہل اسلام لائے اور پہلے مہاجر ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں حبشہ کی طرف ہجرت کی اس موقع پر رسول اکرمؐ نے فرمایا عثمان غنی وہ خوش نصیب ہے جس نے سیدنا ابراہیمؑ کے بعد پہلی بار اپنی زوجہ کے ہمراہ ہجرت اسلام کی آیت بالا میں اللہ تعالیٰ نے جن مصائب و مشکلات کا ذکر فرمایا سیدنا عثمان بن عفان ان سب جھیلتے ہوئے اپنی خلافت کے بارہویں سال 35ہجری اٹھارہ ذوالحجۃ کو ایسے مظلومانہ طریقے سے شہید کر دیے گئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو خلعت شہادت فاخرہ کے مرتبے پر فائز فرمایا۔
سیدنا عثمان بن عفان یکم محرم الحرام 24ہجری کو خلافت ِ راشدہ کے منصب پر فائز ہوئے اس وقت اسلامی ریاست کی سرحدیں 22 لاکھ 50ہزار مربع میل تک پھیل چکی تھیں آپ نے تیزی کے ساتھ ان میں اضافہ کیا براعظم ایشیا مکمل طور پر فتح کرکے چین وروس کو اسلامی ریاست میں شامل کیا سرحد کو کوہ قاف تک پہنچادیا دوسری طرف براعظم افریقا کے تمام ممالک فتح کرکے طرابلس ومراکش کو اسلامی ریاست میں شامل کیا جہاں سے براعظم یورپ صرف دس میل کے فاصلے پر واقع تھا قیصر روم کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بحری قزاقی کو روکنے کے لیے امیر معاویہ کو بحری بیڑہ تیار کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے صرف ایک سال بعد ہی 1400 بحری جنگی جہاز تیار کرکے سمندر میں اتار دیے اسلامی ریاست کے علاقے ملک شام کے ملحق رومی سلطنت کے جزیرے قبرص کو فتح کیا پھر رومی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کو فتح کیا جس کی پیش گوئی رسول اکرمؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں فرمائی تھی اور اس میں شرکت کرنے والوں کو جنت کی بشارت سے شاد کام کیا تھا۔ کثرت فتوحات کے نتیجے میں مال ودولت کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ مدینہ ہر باشندے کو ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ ملتا تھا متعصب یہودی سازش کرنے والے جو ازل سے مسلمانوں کے دشمن ہیں انہوں نے اسلامی فتوحات کا سلسلہ روکنے کے لیے ایک یہودی لیڈر عبداللہ بن سبا کو منافقت کے لبادے میں اسلام قبول کروا کر مسلمانوں میں داخل کردیا جس نے یہودی سرمائے کے بل بوتے پر اسلامی ریاست کے طول و عرض کا دورہ کرکے خلیفہ اسلام کے
خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کر دیا چند سال کے اندر وہ سیکڑوں افراد کا لشکر لیکر مدینہ منورہ پہنچا اور قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا انہوں نے مدینہ پر قبضہ کر نے کے لیے ذوالحجۃ کے مہینے کا انتخاب کیا جب اکثر جلیل القدر صحابہ کرام حج کے لیے مکہ روانہ ہو چکے تھے ان بلوائیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کر نی کی بعد سیدنا عثمان غنی سے خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا سیدنا عثمان غنی نے فرمایا میں تمہارے کھنے پر خلافت نہیں چھوڑوں گا کیونکہ رسول اکرمؐ نے اپنی حیات میں عثمان بن عفان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا اللہ تجھے خلافتِ کی قبا پہنائے گا کسی کے کھنے پر اسے نہ اتارنا۔ اس کے لیے مجھے جام شہادت ہی کیوں نہ نوش کرنا پڑے۔ ایک دن مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر بلوائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں نے اپنی ذاتی رقم سے جس بئیر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا آج تم مجھے اس کا پانی بھی نہیں پینے دیتے جس مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے میں نے قطعہ زمین خرید کر وقف کردیا اس میں مجھے۔ نماز ادا کرنے سے تم نے روک دیا دن محاصرے میں آپ بھوکے پیاسے رہے اور مسلسل روزے رکھتے رہے۔
بلوائیوں نے آپ کو شہید کر نے کا فیصلہ کر لیا تھا ایک ظالم مکان کے اندر داخل ہوا اور آپ کی ریش مبارک کو پکڑ جھنجھوڑا دوسرے نے لوہے سلاخ سے وار کرکے آپ کو زخمی کردیا اس اثنا میں چند اور تلواروں سے مسلح افراد آپ پر حملہ آور ہونے لگے تو آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ نائلہ نے ان کو روکا تو بلوائیوں نے ان کی تین انگلیاں کاٹ دیں اور سیدنا عثمان غنی کو شہید کردیا وقت شہادت سیدنا عثمان غنی روزے سے تھے اور قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر 137 تلاوتِ کررہے تھے جس کا معنی ہے۔ اگر وہ پلٹ جائیں تو وہ اختلاف میں رہیں گے اور آپ کی طرف سے ان کو اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ خون کی چند چھینٹیں اس قرآنی صفحے پر جا پڑیں بعد میں یہ قرآنی نسخہ روس پہنچ گیا۔ 1965 کے معاہدہ تاشقند کے موقع پر اس قرآن مجید کے نسخے کی ایک نقل روسی صدر نے صدر پاکستان ایوب خان کو دی تھی جو آج بھی کراچی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد پورا مدینہ سوگ میں ڈوب گیا صحابہ سراسیمہ ہو گئے یہودی سامراج کے ایجنٹ ظالم بلوائیوں نے نہ مدینے کا احترام کیا نہ صحابہ کرام کا نہ داماد رسول کا نہ خلیفہ اسلام کا بلوائیوں کی دہشت کی وجہ سے سیدنا عثمان کا جسد خاکی تین دن تک بے گورو کفن پڑا رہا تیسرے دن رات کی تاریکی میں چند صحابہ نے نماز جنازہ ادا کی اور اسی خون آلودہ لباس میں آپ کو دفن کردیا۔
اس حادثہ فاجعہ وسانحہ دلسوز پر جلیل القدر صحابہ کے تاثرات یہ تھے سیدنا عبداللہ بن سلام آج عرب کی طاقت کا خاتمہ ہو گیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ عثمان غنی مظلوم شہید ہوئے ان کا نامہ اعمال صاف کپڑے کی طرح اجلا ہے سیدنا حذیفہ یمانی عثمان غنی کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا وہ قیامت تک پر نہیں ہو سکے گا۔ سیدنا سعید بن زید اگر آج لوگوں پر احد پہاڑ گر پڑے تو مجھے تعجب نہیں ہوگا۔ سیدنا عثمان غنی نے اپنی حیات مستعار میں بیشمار مصائب ومشکلات برداشت کیں مگر اپنی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائے راضی برضا رہے کسی شاعر نے کھا۔ راہ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم۔ پراس راہ پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم