بجٹ یا اشرافیہ کی بچت

418

ہر حکومت اپنے پیش کر دہ بجٹ کو عوام دوست کہتی ہے مگر بجٹ ہمیشہ خواص دوست ہی ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت بھی اپنے بجٹ کو عوام دوست کہہ رہی ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ بجٹ خاص خواص دوست ہے موجودہ بجٹ میں بظاہر اشرافیہ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے مگر 4 کھرب روپے ٹیکس کی رعایت بدستور برقرار ہے گویا بجٹ میں اشرافیہ کو 4 کھرب روپے کی رعایت دی گئی ہے۔

ماہرین ِ اقتصادیات کہتے ہیں کہ بجٹ وہی عوام دوست ہوتا ہے جس میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی گئی ہیں۔ موجودہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ عوام کو جھولی پھیلانے کی ترغیب کے سوا کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں 593 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں تعلیم کی مد میں 32 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور صحت کے لیے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

تعلیم کے سالانہ بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ حکومت ہر شہری کو 135 روپے سالانہ دے گی جسے پورے سال کے لیے پنسلیں بھی نہیں خریدی جا سکتیں۔ اور صحت کے لیے 92 روپے سالانہ ہر شہری کو دیے جائیں جس سے سر درد کی دوائی بھی نہیں خریدی جاسکتی۔
بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں 593 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو عوام کو بھیک کی صورت میں دیے جائیں گے کیا یہ بہتر نہ ہوتاکہ 593 ارب روپے سے عوام کو روز گار فراہم کرنے کے لیے فیکٹریاں بنائی جاتیں۔ کہتے ہیں کہ ایک ارب روپے سے ایک فیکٹر ی بنائی جاسکتی ہے جو سیکڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ گویا 593 فیکٹریاں قائم کی جاسکتی ہیں۔ مگر کوئی حکومت عوام کو روزگار فراہم کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ کیونکہ کوئی حکومت عوام کو خوشحال دیکھنا ہی نہیں چاہتی ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ عوام کو بھکاری بنائے رکھے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ساری دنیا اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ پاکستان کے مقتدر طبقے کا سیاسی منشور اور نصب العین عوام کو ننگا اور بھوکا رکھنا ہوتاہے تاکہ بیرونِ ممالک سے بھیک ملتی رہے۔

دنیا کی اکثریت حیران ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے دشمنوں کی دہلیز پر سرنگوں کیوں ہیں؟ حالانکہ پاکستانی عوام اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ زرداری اور شریف فیملی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اشیائے ضروریات اور خورو نوش کے اکثر شعبوں ان دونوں خاندانوں کا قبضہ ہے شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اْنہیں سیاست سے بے دخل کر دیا جائے تو 50 فی صد مہنگائی ختم ہوجائے گی۔ بنگلا دیش کی مضبوط معیشت کی وجہ یہی ہے کہ اْنہوں نے پاکستان کے سیاست دانوں سے نجات حاصل کر لی ہے۔

کسانوں کے لیے بجٹ میں 15 ارب روپے مختص کرنا اور بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں 593 ارب روپے مختص کرنا بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ راجہ بیوپاری ہو تو عوام بھکاری بن جاتے ہیں۔ جب تک بیوپاری حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی عوام بھیک کے لیے قطار در قطار کھڑے رہیں گے۔

قومی بد نصیبی یہ بھی ہے کہ ہمارا انتخابی عمل ایسا ہے جو اہل ِ ثروت ہی کو ایوانِ اقتدار میں لاتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال قابل ِ غور ہے کہ کوئی ٹی بوائے پاکستان کا وزیرِ اعظم بن سکتا ہے؟ یا کسی مچھیرے کا بیٹا صدر بن سکتا ہے اور اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ’’نہیں، ہرگز نہیں‘‘ کیونکہ پاکستان کی تحریک منزلِ مراد کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ تحریک حکمرانی کے لیے تھی۔

موجودہ بجٹ کے بعد ایک ایسا بل منظور کیا گیا ہے جس میں موجودہ اور سابق چیئرمین سینیٹ کو تاحیات جو مراعات دی گئی ہیں اْس کے تحت 12 ملازمین، 6 گاڑیاں، VIPسیکورٹی، سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹر دیا جائے گا۔ 18 لاکھ صوابدیدی فنڈ سے نوازا گیا ہے پوری فیملی کو لامحدود میڈیکل سہولت، بیرونی ممالک کے دورے، مفت ٹیلی فون، مفت پٹرول اور رہائش گاہ مستحق قرار دیا گیا ہے۔ گویا انہیں شہنشاہِ معظم تسلیم کر لیا گیا ہے۔

اگر بنگلا دیش کے بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اْن کا علٰیحدگی کا فیصلہ درست تھا۔ بنگلا دیش نے تعلیم کے لیے 2235 بلین روپے مختص کیے ہیں جبکہ پاکستان نے 103 بلین روپے۔ بنگلا دیش صحت کے لیے 977 بلین روپے مختص کیے ہیں جبکہ پاکستان نے 27 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ دفاع کے لیے پاکستان نے 2200 بلین روپے مختص کیے ہیں جبکہ بنگلا دیش کے 999 بلین روپے مختص کیے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے عوام خوشحالی کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلے بجٹ میں خوابوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔