پاکستان کو فوجی آپریشن کی نہیں،سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ،حافظ نعیم الرحمن

439

لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کو فوجی آپریشن کی نہیں، سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ فوجی آپریشن عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کرتا ہے، یہ مسئلے کا حل نہیں، 2001 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری معیشت کا 200 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان کرچکی ہے، 70 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جس میں ہزاروں فوجی جوان بھی شامل ہیں، یہ اندھی لڑائی ہم کب تک لڑیں گے؟ قبائل، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کب تک اس آگ میں جلیں گے، افغانستان سے بامعنی مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہے، افغان حکومت کو بھی حالات کا ادراک کرکے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، افغانستان کی سرزمین کسی بھی صورت میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے، پاکستان، افغانستان اور چائنا ملکر خطے میں امن قائم کرسکتے ہیں، انہی خطوط پر آگے بڑھنا ہوگا، سوال یہ بھی ہے کہ ہر آپریشن کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ منصورہ سے جاری بیان میں امیر جماعت نے کہا کہ امن، معاشی اور سیاسی استحکام عوام کی رائے سے بننے والی حکومت ہی کے ذریعے آ سکتا ہے۔ امن کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ اور بیرونی مداخلتوں کا سدباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول اور اعتماد کی بحالی، چین اور دوست ممالک کے سرمایہ کاروں اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والوں کی حفاظت پوری قوم کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ پاکستان کے عوام بالخصوص خیبر پختونخوااور بلوچستان کے قبائلی عوام فوجی آپریشن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ملک میں امن کا قیام، دہشت گردی کے خاتمے اور ہر طرح کے مذہبی، سیاسی اور سماجی انتہا پسندی، عدم برداشت کا سدباب چاہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام پاکستان آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ پارلیمنٹ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور قومی، سیاسی جمہوری قیادت سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ماضی کی تاریخ واضح ہے کہ اس طرح کے فوجی آپریشن ناکام ثابت ہوئے ہیں، جس کے باعث خود اداروں کی نیک نامی پر حرف آیا۔ جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے آپریشنز میں فوجی جوانوں سمیت عوام کی بڑے پیمانے پر شہادتیں ہوئیں اور ملک کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میںعوام اور فوج کے درمیان خلیج بڑھتی رہی۔ انھوں نے واضح کیا کہ قومی اتفاق رائے کے بغیر آپریشن اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ آپریشن کے بجائے متعین ایکشن کی ضرورت سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ انٹیلی جنس، پولیس اور عدالتی نظام کو فعال اور مؤثر بنایا جائے کیوں کہ آپریشن کے بعد بھی تو سارے معاملات سول اداروں ہی نے سنبھالنے ہیں، لہٰذا جن سول اداروں کا یہ کام ہے انھیں مضبوط بنایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ خطہ امریکی مفادات کی خاطر دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہے۔ ضرورت ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک سے بات چیت کے ذریعے خطے کے امن کو بحال کرے۔