آپریشن عزمِ استحکام وژن کا نام ہے، کسی مسلح آپریشن سے موازنہ درست نہیں، وزیراعظم آفس

214

اسلام آباد: وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام ایک وژن کا نام ہے، کسی مسلح آپریشن سے اس کا موازنہ درست نہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وژن جس کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب، راہ نجات وغیرہ سے کیا جا رہا ہے۔ کسی بڑے آپریشن پر غور نہیں کیا جارہا، یہ جاری آپریشن کو آگے بڑھانا ہے۔

وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات جو نوگو علاقے بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے سے دہشت گردوں کو ہٹا کر دہشتگردی ختم کی گئی۔  ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دہشتگردی کے عفریت کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی۔

وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک میں ایسے کوئی نو گو ایریاز نہیں ہیں کیونکہ دہشت گردوں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گزشتہ مسلح آپریشنز سے فیصلہ کن طور پر شکست دی جا چکی ہے۔

بیان کے مطابق بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سیکورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وژن ہے۔ اس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے۔

وزیراعظم آفس کا کہنا ہے کہ عزم استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلیجنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کے لیے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کیے گئے اس مثبت اقدام کی پزیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے۔