انسانی دودھ بینک کا قیام اور خدشات

293

پاکستان میں بے حد غربت ہے۔جس کی وجہ روزگار کے کم مواقع اور معاشی گرواٹ ہے۔ بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کی تقریباً تمام تر کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس لیے اب ارباب اقتدار نے روزگار فراہمی کے نت نئے طور طریقے اختیار کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ ان میں اب ایک طریقہ مدرز ملک بینک کا قیام بھی ہے۔یعنی انسان دودھ کی خرید و فروخت کا نیا قانونی طریقہ۔ جسے عوامی سنجیدہ حلقوں کی تشویش کے سبب فی الحال معطل کردیا گیا ہے۔یہ بینک نوزائیدہ بچوں کی صحت کے نام پر شروع کیا جارہا تھا۔ مگر مقصد انسانی دودھ کی خرید و فروخت تھا۔چونکہ پاکستان میں انسانی اعضاء کی غیر قانونی خرید و فروخت پہلے ہی عروج پر ہے۔ لوگ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اعضاء محض چند پیسوں کی
خاطر فروخت کردیتے ہیں۔ایسے میں غریب و مزدور خواتین کو اس طرح کی کمائی کا نیا آئیڈیا دینا ایک قبیح فعل ہے۔ اس طرح مدرز ملک بینک امراء کے بچوں کے لیے تو دودھ جمع کر لے گا۔ مگر غریب کے نوزائیدہ بچے کی یہ ابتدائی ضروری خوراک اس سے چھن جائے گی کیونکہ بہت سی مائیں اپنا دودھ پیسوں کی خاطر اس بینک کو بیج آئیں گی۔ یعنی غریب کا بچہ اپنی ماں کے دودھ سے بھی محروم ہو جائے گا۔ رضاعت و حرمت کے حوالے سے اگر یہ بینک علماء کرام کے تمام خدشات دور بھی کردے تب بھی اس طرح کے بینک کو کام کی اجازت بالکل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح کے بینک غریب مزدور کے بچہ کو قحط سالی کا شکار کردیں گے۔ اس لیے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کو نوزائیدہ بچوں کی صحت کے نام پر انسانی دودھ کی خرید وفروخت کی ہر گز اجازت نہ دی جائے۔