سماجی بحران کا منظر نامہ

406

گزشتہ ہفتے ایک اخبار میں نہایت اہم اور دلچسپ موضوع پر تفصیلی فیچر شائع ہوا ہے۔ فیچر کا موضوع یہ ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی نصیحتوں اور مشوروں پر عمل نہیں کرتا ہے۔ فیچر میں اس حوالے سے پیش کی گئی مثالیں نہ صرف یہ کہ دلچسپ ہیں بلکہ ہم سب اپنے تجربے سے ان کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔ آج ہم اس فیچر کی تلخیص آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ تلخیص کے مندرجات کا تجزیہ بعد میں ہوگا۔
فیچر کے سلسلے میں اپنے تاثرات دینے والے والدین نے شکایت کی ہے کہ اولاد ہماری نہیں سنتی۔ ہماری نصیحتوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ نقصان اْٹھانے کے بعد ہی سدھرتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ ان کا بیٹا بری صحبت میں پڑ گیا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا مگر وہ اپنی روش بدلنے پر تیار نہ ہوا، پھر یوں ہوا کہ وہ بیروز گار ہو گئے اور حالات کی خرابی نے انہیں ایک دن دل کے دورے تک پہنچا دیا اور گھر میں دوا کے لیے بھی پیسے دستیاب نہ ہو سکے۔ بقول ان صاحب کے ایسے میں نہ جانے ان کے بیٹے کو خیال آیا کہ اس نے بری صحبت یکا یک چھوڑ دی اور سیلز مین بن گیا۔ بقول والد کے ان کا بیٹا اب سدھر گیا ہے، بات مانتا ہے اور من مانی نہیں کرتا۔
اساتذہ نے شکوہ کیا ہے کہ طلبہ لاکھ سمجھانے پر بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ مشورہ انہیں زہر لگتا ہے۔ بزرگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ ایک استاد نے بتایا کہ ان کا ایک طالب علم جرائم پیشہ ہو گیا۔ انہوں نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ مان کر نہ دیا اور بالآخر ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
ڈاکٹروں اور حکیموں نے رائے دی ہے کہ اکثر مریض ان کے طبی مشوروں کو نہیں مانتے۔ پرہیز کے بارے میں ڈاکٹروں کی ہدایات مریضوں کو زہر لگتی ہیں، ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ مریضوں سے لاکھ کہیں کہ ڈاکٹروں کے مشورے کے بغیر دوا استعمال نہیں کرنی مگر وہ سنتے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں 30 ہزار دوائیں دستیاب ہیں جو سب کی سب بڑے پیمانے پر فروخت ہوتی ہیں، حالانکہ 500 دواؤں سے 90 فی صد امراض کا علاج ہو جاتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ خوراک، صفائی اور پرہیز کے بارے میں کوئی مریض مشکل ہی سے سنجیدہ ہوتا ہے۔ علمائے کرام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ معاشرے کی حالت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہیں اور پند و نصائح اور مشورے سب رائیگاں ہیں۔ ایک عالم دین نے شکوہ کیا ہے: ملک میں لاکھوں مساجد اور مدارس ہیں جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لاکھوں افراد گھر گھر تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں لیکن معاشرے پر اس کا کوئی اثر ہی نظر نہیں آتا۔
جج صاحبان اور انتظامیہ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ سزاؤں، پھانسیوں اور عدالتی تنبیہ کے باوجود معاشرے میں کوئی شخص عبرت حاصل نہیں کرتا۔ مواعظ اور مشورے سب بیکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتوں کی پنچایتیں اور بزرگوں کی صلح کمیٹیاں بھی ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب اکثر لوگ مشورے ماننے کے بجائے خود براہ راست اقدام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
سماجی رہنماؤں اور اصلاحی تحریکوں سے وابستہ افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لاکھ کوشش کر لیں، سوشل ورکرز کی نصیحتوں پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے شہروں میں روزانہ 60 لاکھ ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے جس کا 40 فی صد کھلے علاقوں میں پڑا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک چند برسوں میں نشہ کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ ہو جائے گی۔
ماہرین اقتصادیات نے شکوہ کیا ہے کہ حکمرانوں کو جتنے چاہے مشورے دیں، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین نے حکمرانوں کو مسلسل مشورے دیے کہ قرضے نہ لیے جائیں لیکن ایوب خان نے 54 ارب، ضیاء الحق نے ڈیڑھ کھرب، بینظیر نے ایک کھرب اور میاں نواز شریف نے 100 ارب روپے کے قرضے لیے۔
فیچر نگار نے معاشرتی منظر نامے سے مثالیں ہی پیش نہیں کیں بلکہ بعض دانشوروں سے تجزیاتی آراء بھی حاصل کی ہیں۔ مثلاً ممتاز ڈراما نگار اشفاق احمد نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ہم مشوروں اور نصیحتوں کے سیلاب میں زندہ ہیں، ذرائع ابلاغ سے روزانہ لاکھوں مشورے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگ تجربے سے بھی نہیں سیکھتے کیونکہ تجربے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ یہ ترغیب و تحریص کا زمانہ ہے۔ اشفاق احمد نے خیال ظاہر کیا کہ لوگ مشوروں اور نصیحتوں پر عمل کریں یا نہ کریں مگر ان کی اہمیت اور افادیت باقی رہے گی۔ پروفیسر مسکین حجازی نے رائے دی ہے کہ کہنے والے کا اپنا عمل اگر کھوٹا ہو تو اس کی بات کا کسی پر اثر نہیں ہوگا۔
یہ تجزیے اہم ہیں۔ قول و فعل کا تضاد ہر دور میں بات کو غیر مؤثر بنا تا رہا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم پر پیغامات کی یلغار ہو چکی ہے۔ یہ بات بھی ایک حد تک درست ہے کہ ترغیب و تحریص کو فی زمانہ بہت اہمیت حاصل ہوگئی ہے، لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی عدم استحکام ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری حالت دھوبی کے کتے جیسی ہو گئی ہے۔ ہم گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔
زیر غور معاشرتی بحران صرف ہمارا مسئلہ نہیں، یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور مغربی دنیا میں بھی اس کو بڑے پیمانے پر ظہور پذیر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی دنیا نے مذہب ترک کر کے اور دنیا کو اختیار کر کے بڑی ہی ہولناک غلطی کی ہے، لیکن وہاں تبدیلی کا دائرہ مکمل ہوا ہے۔ انہوں نے ایک نظام حیات سے دوسرے نظام حیات کی جانب مراجعت کی ہے اور مغربی دنیا نے اس مراجعت کو درست سمجھا ہے اور اپنے اس اعتبار کو عقیدے کی حیثیت دی ہے۔ اس سے مغرب کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ان کے طرز فکر میں ایک طرح کا ارتباط اور ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں مذہب بھی عزیز ہے اور وہ دنیا بھی جو مذہب کے دائرے سے باہر ہے، اس صورت حال کی وجہ سے ایک ہولناک قسم کی پیکار ہمارے اندر جاری رہتی ہے۔ کبھی ایک پلڑا جھکتا ہے، کبھی دوسرا۔ اس کیفیت کی وجہ سے ہمارے یہاں عجیب وغربت قسم کے واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً انہی دنوں خبر آئی ہے کہ بھارت کے ممتاز ادا کار کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب میں تھے جہاں وہ کسی جگہ پر نوکری کر رہے تھے۔ نوکری کا مقصد ایسا رزق حلال کمانا تھا جسے وہ فریضہ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں بروئے کار لاسکیں۔ لیکن یہ مسئلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
ہماری داخلی آویزشوں نے ہمارے اندر اتھارٹی کے خلاف ایک زبردست رد عمل پیدا کر دیا ہے اور ہم والدین کی اتھارٹی سے لے کر ڈاکٹر کی اتھارٹی تک ہر اتھارٹی کے خلاف خود کو صف آرا محسوس کرتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اخلاق اور اخلاقی اصول ہمیں صرف کمزوری کی حالت ہی میں یاد آتے ہیں۔ ہم کمزور نہ ہوں تو صرف طاقت کی زبان بولتے ہیں اور صرف طاقت ہی میں کشش محسوس کرتے ہیں۔
داخلی آویزشوں نے ہر سطح پر معاشرے میں کارفرما ’’ابلاغی نظام‘‘ کے پر خچے اڑا دیے ہیں اور فرد کا فرد سے ابلاغ ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ابلاغ ہی نہیں ہو گا تو کسی پر کسی بات کے اثر کا سوا سوال ہی پیدا نہ انہیں ہوتا، انسان کبھی پرندوں کی زبان بھی سمجھ سکتا تھا لیکن اب انسان انسان کی زبان نہیں سمجھتے۔