ہمارے لیڈر عوام سے ہمیشہ قربانی مانگتے ہیں۔ لیکن اب عوام لیڈروں کی قربانی مانگتے ہیں کہ وہ اپنی مراعات چھوڑ دیں۔ لیکن نظر یہ آتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ان جونکوں کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔ ویسے بھی قربانی تو حلال آمدنی سے ہوتی ہے حرام مال اور حرام جانور کی قربانی تو کبھی جائز نہیں ہوتی۔
خطبہ حج میں امام کعبہ نے فرمایا کہ: ’’جو ظلم کرتا ہے اس کی پکڑ ہوگی۔ مومنوں کو تکلیف پہنچانے والے کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ فحش کاموں سے اجتناب کرو شراب اور جوا شیطانی عمل ہے‘‘۔
جناب وزیراعظم صاحب آپ نے کبھی سوچا کہ اس خطبے کی روشنی میں آپ کو امام کعبہ نے کیا پیغام دیا ہے اور اگر آپ نے اس پر عمل نہیں کیا تو آپ کا اور پاکستان کے طبقہ اشرافیہ کا کیا حشر ہوگا؟ کیا یہ طبقہ سمجھ رہا ہے کہ اہل پاکستان کو تکلیف پہنچا کر اسے فلاح ملے گی؟ اسے آرام ملے گا۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ جس نے بھی پاکستان کے ساتھ برا کیا اس کے ساتھ برا ہی ہوا۔ اسکندر مرزا نے پاکستان میں پہلا مارشل لالگایا، تو دو دن کے اندر ہی اسی مارشل لا نے ان کو لات مار کے ملک سے باہر پھینک دیا۔ ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو یحییٰ خان نے ان کو لات مار دی۔ یحییٰ خان نے مارشل لا لگایا تو بھٹو صاحب نے ان کو گدی سے اُتار دیا۔ مشرقی پاکستان بھی اسی چکر میں ہاتھ سے نکل گیا۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ مشکل معاشی سفر حکومت اور اشرافیہ سے قربانی مانگتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہو گیا، لیکن صرف ادراک کافی نہیں ہے۔ انہیں عملی قدم بھی اٹھانا چاہیے۔ مگر مجھے امید نظر نہیں آتی کیونکہ آئی ایم ایف کے مقرر کردہ وزیر خزانہ مسٹر اورنگزیب رمدے اور ایف بی آر کے چیئرمین امجد زبیر ٹوانہ پاکستان کے عوام کے ساتھ دشمنی پر تل گئے ہیں۔ امجد زبیر ٹوانہ کہتے ہیں کہ دال، آٹا، چاول، چینی اور مسالوں پر پیک ہونے کی صورت میں 18 فی صد جی ایس ٹی لگے گا۔ یہ وہی ٹوانہ صاحب ہیں جن کے آباواجداد میں سر خضر حیات ٹوانہ تھے۔ سرخضر حیات ٹوانہ انگریزوں کے پروردہ یونینسٹ پارٹی کے سرکردہ اور پاکستان میں ان کی سیاست کی وراثت آج بھی موجود ہے۔ جو آج بھی پاکستان سے انگریزوں کی حکومت ختم نہیں ہونے دے رہی ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی ترکیب آزما رہی ہے۔
ایف بی آر کی صرف یہی دھمکی نہیں ہے کہ نان فائلر کے موبائل فون کی سم بند کی جائے گی بلکہ پاسپورٹ بھی ضبط کیا جائے گا اور جائداد کی خرید و فروخت پر 45 فی صد ٹیکس بھی عائد کیا جائے گا۔ بجلی گیس اور ٹیلی فون کا کنکشن منقطع کرنے کی دھمکی بھی امجد زبیر ٹوانہ نے دی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یک عددی ٹیکس (سنگل ڈیجٹ) نافذ ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیکس افسران رشوت نہیں لے پاتے اور حکومت کے اخراجات بہ آسانی پورے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں 100فی صد کی شرح تک ٹیکس بعض جگہوں پر عائد ہے۔
جناب وزیراعظم صاحب کوئی شخص کسی ایسے ادارے کے خلاف بات کرے جسے آئین میں تحفظ حاصل ہے تو اس کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ لیکن آئین میں عوام کو جن چیزوں کی ضمانت دی گئی ہے زندگی کی شہریت کی اور کاروبار کی ملازمتوں کی اور وہ کہیں بھی اس چیز سے مشروط نہیں ہے کہ ان کو ٹیکس نہ دینے کی بنا پر ان سے محروم کر دیا جائے گا۔ آئین کی ان ضمانتوں کی صورت میں چیئرمین ایف بی آر کی یہ دھمکی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ کسی بھی صورت میں نہ کسی شخص کا نہ پاسپورٹ ضبط کیا جا سکتا ہے نہ اس کا شناختی کارڈ روکا جا سکتا ہے، نہ اس کے کاروبار پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ نہ ہی اس کے بجلی گیس کے کنکشن کاٹے جاسکتے ہیں اور نہ اس کی نقل و حرکت کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے کاروبار کی آمدنی کو دیکھ کر اگر وہ ٹیکس نہیں دے رہا ہے تو اس پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے اور اسے ٹیکس نہ دینے کے جرم میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے شہری حقوق سلب کرلیے جائیں یہ سب نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی سم بند کر دی جائے اس کا پاسپورٹ چھین لیا جائے۔ اس کے شہری حقوق اس سے نہیں چھینے جا سکتے۔ ایسے لوگوں کو جو آئین پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ان کو اتنے اعلیٰ عہدوں پر کس کی سفارش نے پہنچایا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی لوگ بغیر کسی قابلیت کے کیسے ان عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔
جناب وزیراعظم آج مہنگی بجلی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے اور مہنگی بجلی کا سبب یہی ایف بی آر ہے۔ یہ آپ اور آپ کی پارٹی کی سیاسی موت کا پیغام ہے۔ اگر بجلی اسی طرح مہنگی ہوتی رہی تو یہ پارٹی آئندہ کبھی برسر اقتدار نہیں آئے گی۔ اگر اس نے اس بجٹ کو منظور کر لیا جس میں عوام کا خون نچوڑنے کے نئے نئے طریقے وضع کیے گئے ہیں تو عوامی احتجاج کی وہ لہر اٹھے گی جس پر قابو پانا مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔
جناب وزیراعظم صاحب آپ بجٹ پیش ہی کیوں کرتے ہیں؟ جس ملک میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اضافہ ہوتا ہے اور بجٹ ایک تماشا بن کر رہ جاتا ہے۔ اوگرا اور نیپرا دونوں غیر منتخب ادارے ہیں لیکن یہ ہر پندرہ دن پر ایک عام آدمی کا بجٹ بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جس ملک میں قیمتوں کے تعین کا اختیار عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہ ہو تو وہاں بجٹ پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اوگرا اور نیپرا کی جانب سے کیے جانے والے اضافے غیرآئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ کی حکومت کا یہ آخری سال ہے۔ اگر ن لیگ کو مستقبل میں بھی سیاست کرنی ہے تو صرف پٹرول کی قیمت کم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ بجلی کے نرخوں میں بھی مناسب حد تک کمی لائے اور فی یونٹ کے ریٹ یکساں رکھے۔ سلیب ریٹ کا غیر منصفانہ اور عوام دشمن نظام ختم کرے۔ اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر کو اس بات کی کھلی چھوٹ نہ دیں کہ وہ جہاں چاہیں جس شرح سے ٹیکس نافذ کریں، ٹیکس نافذ کرنے، ٹیکس کی شرح کا تعین کرنے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کا ہونا چاہیے۔ جو بجٹ کی منظوری دیتی ہے اسے ہی مالیاتی امور میں حتمی فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ کوئی ایک شخص فیصلہ کرنے کا تنہا مجاز نہیں ہے کہ کس پر کتنا ٹیکس لگے گا؟ کیونکہ اس کے اپنے ذاتی مفادات ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ کے مفادات اجتماعی ہوتے ہیں ٹیکس لگانے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کے حوالے کیجیے تاکہ آئندہ کے لیے کسی یک شخصی یعنی آمرانہ حکومت کے آنے کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ مالیاتی امور میں پارلیمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اختیار دیجیے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ریٹیلرز ٹیکس نہیں دیتے تو آپ یہ بتائیے کہ ہر پیک شدہ شے پر جی ایس ٹی کی رقم درج ہوتی ہے وہ کہاں جاتی ہے؟ وہ کیوں درج ہوتی ہے؟ اگر حساب لگائیے تو کھربوں روپے بنتے ہیں جو اس مد میں عوام سے جی ایس ٹی کے نام پر وصول کیے جاتے ہیں، وہ قومی خزانے میں کیوں نہیں پہنچتے؟ یہ سوال کس سے اور کون کرے گا؟ اس کا جواب ایف بی آر کا چیئرمین کیوں نہیں دیتے۔ موبائل فون کی مثال لیجیے کہ اس کے پری پیڈ کارڈز پر 28 فی صد ٹیکس وصول ہوتا ہے اور اس کے18 کروڑ صارفین ہیں یہ موبائل فون صارفین ہر ماہ اربوں روپے کے کارڈ خریدتے ہیں۔ ان سے وصول ہونے والا ٹیکس کہاں جاتا ہے؟ ہم نے ایک دفعہ حساب لگایا تھا تو ایک سال کے اربوں اور کھربوں روپے بن رہے تھے۔
ادارہ شماریات پاکستان کی طرف سے ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 5کروڑ 60لاکھ لیٹر پٹرولیم مصنوعات استعمال ہو رہی ہیں۔ پٹرول کے ہر لیٹر پر تقریباً 100 روپے کا ٹیکس ہے۔ یعنی قوم روزانہ پانچ ارب 60 کروڑ روپے صرف پٹرول کی مد میں ٹیکس دیتی ہے۔ یہ رقم کہاں جاتی ہے؟۔ یہ قوم ٹیکس دینے کے باوجودٹیکس چور کہلاتی ہے؟قوم پر ایسا گھناؤنا الزام لگانے والوں کو کون پکڑے گا؟
فائلر اور نان فائلر کی تشریح ہونی چاہیے کہ کسے نان فائلر کہا جائے گا۔ اس لیے کہ ایک غریب آدمی انکم ٹیکس ریٹرن خود نہیں داخل کر سکتا۔ اس کے لیے اسے انکم ٹیکس کے وکیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کم از کم فیس 10 ہزار روپے لیتا ہے ایک غریب آدمی کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ اور ٹیکس ریٹرن فارم بھی اتنا سادہ اور آسان نہیں ہوتا کہ وہ خود بھر لے یا کسی پڑھے لکھے سے بھروا لے۔ اس کے لیے اسے کسی ماہر ٹیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیکس ریٹرن کا فارم امریکی اور برطانوی زبان میں ہوتا ہے جو عام شہری کی سمجھ سے باہر ہے۔ بلکہ عام شہری کیا عام تاجر کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ لہٰذا ایف بی آر جو کہ ایک ناکام ادارہ ہے بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ کئی برسوں سے موبائل فون کمپنیوں سے پٹرول کمپنیوں سے، کے الیکٹرک سے اور دیگر ڈسکوز سے اور پیکٹ میں اشیاء فروخت کرنے والی صنعتوں سے سیلز ٹیکس کی مد میں واجب الادا رقم وصول کرنے میں یا تو ناکام ہے یا وہ رقم ہڑپ کر گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ ایف بی آر 12 ہزار ارب روپے کے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اور شاید اس لیے ناکام ہے کہ اس کے افسران ان اداروں سے بھاری رشوت وصول کرتے ہیں۔ 2 باتیں تو ثابت ہوچکی ہیں کہ ایف بی آر کا ادارہ نااہل بھی ہے اورکرپٹ بھی اور آئین سے ناواقف بھی ہے۔ اب اگر ایف بی آر کی یہی کارکردگی رہی تو اور حکومت کی طرف سے مزید اداروں کی نجکاری کی گئی تو ان سے ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں ہوگا۔
پہلے مرحلے میں ایف بی آر کی تطہیر کرنی ہوگی اس ادارے کے موجودہ اسٹرکچرکو سرے سے ختم کرنا ہوگا اور کرپٹ افسران سے نجات پانا ہوگی ورنہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام کبھی کامیاب نہیں ہوگا اور ناکامی کا الزام سیاسی حکومتوں کے سر آئے گا۔ صرف اس ادارے کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاروں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کا یہی کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام مستحکم نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کب کون سا ٹیکس لگ جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کب ہمارا سرمایہ یہاں پھنس کے رہ جائے۔ اس لیے وہ یہاں سرمایہ کاری نہیں کرتے کیونکہ ٹیکس وصول کرنے والے رشوت خور ہیں اور اقتصادی دہشت گرد ہیں۔ اس لیے یہاں سرمایہ نہیں آتا۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں ایف بی آر کے چیئرمین اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کے اثاثوں کو قوم کے سامنے ظاہر کیا جائے اور بتایا جائے کہ انہوں نے یہ کب اور کیسے حاصل کیے؟ انہوں نے اپنے مکان، پلاٹ، گاڑیاں اور بینک بیلنس جائز طریقے سے بنائے یا ناجائز طریقے سے۔ اگر ناجائز طریقے سے بنائے ہیں تو اس عہدے پر وہ رہنے کے اہل نہیں ہیں۔
جناب وزیراعظم صاحب ہم بجلی کے بل دیں تو ٹیکس دیں۔ گیس کا بل دیں تو ٹیکس دیں۔ ٹیلی فون کا استعمال کریں تو ٹیکس دیں۔ موبائل فون پر پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ دونوں صورتوں میں ٹیکس دیں۔ بلکہ ہر کال پر ٹیکس دیں۔ پٹرول خریدیں تو ٹیکس دیں، بازار سے کوئی شے پیکٹ کی صورت میں خریدیں تو ٹیکس دیں، بڑی دکانوں پر مجموعی خریداری پر بھی ایک روپیہ ایف بی آر کو ٹیکس دیں اور اس کے باوجود فائلر اور نان فائلر کی گردان کی جا رہی ہے۔ یہ تو ایف بی آر کی کمزوری ہے کہ وہ ان لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام ہے جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے۔ یہاں تک کہ وہ جنرل سیلز ٹیکس بھی جو عوام سے کمپنیاں وصول کررہی ہیں ان سے وصول کرنے میں ناکام ہے۔ ایسے ناکام ادارے پر مزید بھروسا کرنا ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔ اسے ختم کرکے ٹیکس وصول کرنے کا ایک نیا ادارہ بنانا ہوگا۔ یہ کرپٹ ہوچکا ہے اور ناکارہ ہے۔ کیونکہ پاکستان میں محصولات کا نظام عملاً مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اس کا ذمہ دار ایف بی آر ہے۔
جس حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ ایک عام شخص جس کی آمدنی قابل ٹیکس نہیں ہے، لیکن وہ ہی بجلی، گیس، پٹرول، روز مرہ کی اشیاء کی خریداری پر ہر روز ٹیکس دے رہا ہے اور اس پر اس سے مطالبہ یہ ہے وہ ایف بی آر کے شیطانی گورکھ دھندے میں الجھ کر ہر سال ٹیکس ریٹرن بھی فائل کرے۔ کیا ایف بی آر آج کے دور میں یہ سراغ نہیں لگا سکتا کہ کن لوگوں کی آمدنی قابل ٹیکس تھی اور انہوں نے ٹیکس نہیں ادا کیا ٹیکس ان سے وصول کریں نہ کہ ایک غریب شخص سے جو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے ایک پلاٹ جو اس نے بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا اسے بیچے تو اس پر 45 فی صد ٹیکس لگا دیا جائے یعنی وہ اپنی آمدنی کے 45 فی صد سے محروم ہوجائے۔ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ یہ سرکاری ڈاکہ ہے۔ اس قسم کے فیصلے آئین میں درج بنیادی حقوق کے خلاف ہیں اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ ہر پاکستانی کا شناختی کارڈ موجود ہے اور اس کا بینک اکاؤنٹ اسی بنیاد پر کھلتا ہے کہ اس کا شناختی کارڈ نمبر موجود ہوتا ہے اور وہی اس کا ٹیکس نمبر ہے۔ ایف بی آر کے اہل کار محنت کیوں نہیں کرتے، فیلڈ میں کیوں کام نہیں کرتے۔ وزیر اعظم صاحب ذرا یہ بتائیے کہ ایف بی آر میں کتنے لوگ ہیں جن کے پاس مطلوبہ قابلیت اور تعلیم ہے جو ٹیکس کے نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہے یا صرف سارے سفارشی بھرتی کیے گئے ہیں۔ سارے سیاسی خاندانوں کے لوگ بھرتی کیے گئے ہیں۔
جناب وزیراعظم اگر آپ اللہ کی گرفت سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ بجلی کے بل انسانیت کی سطح پر لے آئیں اور اخراجات پورے کرنے ہیں تو ایوان صدر سے لے کر ان تمام افسران تک جن کے بل معاف ہیں ان کی یہ عیاشی ختم کی جائے وہ خود اپنی تنخواہ سے اپنے گھروں کے بجلی کے گیس کے بل مع ٹیکس اور اپنے مکانوں کا کرایہ مع ٹیکس ادا کریں۔ کیونکہ ایک عام آدمی بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ مراعات جوان کو حاصل ہیں یہ بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ایک عام شہری کو یہ مراعات نہیں حاصل ہیں۔آئین پاکستان کے مطابق ہر شخص کے ساتھ مساوی سلوک نہیں ہو رہا۔ اراکین پارلیمنٹ بھی اپنے یوٹیلیٹی بلز خود ادا کریں۔ ججوں کی تنخواہیں بھی نارمل سطح پر لائیں۔ ان کی تنخواہیں اور پنشن ابنارمل ہیں۔ ان کو بھی پابند کریں کہ وہ اپنے گھروں کے بجلی کے گیس کے اور ٹیلی فون کے بل مع ٹیکس خود ادا کریں اپنے مکانوں کا کرایہ خود ادا کریں، کیونکہ ایک عام آدمی ایک عام پاکستانی شہری بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ اتنی بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنے کے بعد انہیں ان مراعات کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ جناب وزیراعظم آپ نے تو نہیں بتایا لیکن اقوام متحدہ کی یو این ڈی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی اشرافیہ ہر سال 17.4 ارب ڈالر سے زائد کی رقم اپنی مراعات اور تعیشات پر خرچ کرتی ہے۔ اس کے باوجود گریڈ 17 سے لے کر گریڈ 22 تک کے افسران کی تنخواہوں میں 22 فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے جس پر کھربوں روپیہ خرچ ہو گا۔ یہ انتہا درجے کا ظلم ہے۔ ایک عام پاکستانی جو سرکاری نہیں نجی ملازم ہے اسے یہ سہولت حاصل نہیں ہے یہ امتازی سلوک ہے۔ جناب وزیراعظم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا ڈھونگ بند کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین سب سے زیادہ نااہل ہیں اور انہی کی وجہ سے ملک کا کاروبار خراب ہے ہر سال ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی صفر سے صفر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک مثال لے لیجیے، پاسپورٹ کے محکمے میں پاسپورٹ فیس وصول کی جاتی ہے ارجنٹ پاسپورٹ کی بھی اور نارمل کی بھی۔ لیکن پاسپورٹ کبھی کسی کو وقت پر نہیں ملتا چاہیے اس نے ارجنٹ ہی کیوں نہ جمع کرایا ہو۔ جواب دیا جاتا ہے کہ کاغذ نہیں ہے اگر کاغذ نہیں تھا تو فیس کیوں لی تھی؟ یہ محکمے کے افسران کی بدمعاشی ہے کہ وہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور رشوت وصول کرتے ہیں اور پاسپورٹ جاری کرتے ہیں اور وزیر داخلہ کو اس کا حصہ پہنچاتے ہیں جب تک اوپر سے لے کر نیچے تک تطہیر کا عمل نہیں ہوگا تو عوام یہ سمجھتے رہیں گے کہ وزیر سے لے کر چپراسی تک سب رشوت کھاتے ہیں اور وزیراعظم ان کا سرغنہ ہے۔ جناب عوام کے اس تصور کو درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کیجیے۔
جناب وزیراعظم یہ سب کچھ ایسے نہیں ہوگا اپ کو مثال بننا ہوگا آپ تو شدید گرمی میں بغیر بجلی کے کام کرنے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اب ہم آپ سے کیا کہیں کہ ملک میں امن و امان کی حالت بھی خراب ہے۔ وزارت داخلہ کا نو ارب 87 کروڑ روپے کا بجٹ کیا صرف وزراء کی حفاظت کے لیے ہے عوام کی حفاظت کب ہوگی؟ کراچی میں رینجرز تعینات ہیں اور اسٹریٹ کرائم بھی عروج پر ہیں اور بجٹ میں اربوں روپے ان پر خرچ ہو رہے ہوتے ہیں لیکن جرائم نہیں رکتے۔ بلوچستان محفوظ نہیں، گلگت بلتستان محفوظ نہیں، خیبر پختون خوا محفوظ نہیں، پنجاب محفوظ نہیں، سندھ محفوظ نہیں، پھر محفوظ کون ہے؟ کیا یہ صرف طبقہ اشرافیہ اور اعلیٰ افسران جو یہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد یا سیاست میں ناکام ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ظلم و مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے صرف عوام رہ جاتے ہیں۔ قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے لیے گئے ٹیکسوں کی رقم کا حساب مانگتی ہے۔ اگر آپ نے اس بجٹ میں ناروے کے شہری اورنگزیب رمدے کی تجاویز پر عمل کیا تو پاکستان برباد ہو جائے گا اور اس کے بعد اورنگزیب رمدے کا دوسرا مطالبہ یہ ہوگا کہ ہم پاکستان کا ایٹمی پروگرام گروی رکھ دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کے قیمتی ادارے اور ان کے قیمتی اثاثے پہلے ہی بیچنے کو تیار ہے۔ اسٹرٹیجک نوعیت کے ائرپورٹس اور دیگر ادارے یہ بیچ رہا ہے پاکستان کو غیروں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔ یہ غیر ملکی وزیر خزانہ پاکستان اور پاکستانی عوام کا گلا گھونٹ رہے ہیں کیا یہ آپ ہونے دیں گے۔ اس انتباہ کے باوجود اگر جناب وزیراعظم آپ نے اور آپ کی حکومت نے ایسا کیا تو پاکستان کے عوام بھی ان شااللہ آزاد کشمیر کے عوام کی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر کیا حشر برپا ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے۔