3 جون کو دن کے تقریباً ڈیڑھ بجے اپنا واٹس اپ چیک کیا تو ظاہر ہوا کہ میرے عزیز دوست سید محمد احسن نقوی، ایڈووکیٹ کی کال آئی تھی۔ رابطہ ہونے پر اْنہوں نے گلْو گیر آواز میں بتایا کہ امی جان خالق حقیقی سے جاملیں ہیں، یہ اطلاع میرے لیے بھی شدید صدمے کا باعث بنی۔ امی جان کا نام فاطمہ بیگم تھا۔ وہ عراق کے ایک مبتحر عالم با عمل آیت اللہ العظمیٰ سیدّ حیدر عباس رضوی کی دْختر تھیں، اْن کی ولادت نجف اشرف عراق میں ہوئی تھی۔ حیدر عباس رضوی کا تعلق الہ آباد سے تھا لیکن وہ 1930ء میں بغرض حصول علوم دینیہ نجف اشرف، عراق تشریف لے گئے تھے اور پھر کبھی واپس ہندوستان نہیں آئے۔ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ عراق ہی میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے اور عراق ہی میں 1939ء میں اْن کی پہلی بیٹی کی ولادت ہوئی۔ والدین چونکہ عربی میں گفتگو کرتے تھے اس لحاظ سے عربی ہی ان کی مادری زبان تھی اور وہ اہل زبان کی طرح عربی میں گفتگو کرتی تھیں۔ امی جان کی پرورش و پرداخت دینی ماحول میں ہوئی لہٰذا دین سے شغف اْن کی طبیعت اور مزاج میں رچ بس گیا تھا۔ اْن کے عقد سعید کی تقریب بھی نہایت سادگی کے ساتھ عراق ہی میں ایک مولانا سید محمد محسن نقوی کے ساتھ انجام پائی۔ مولانا محسن نقوی کا تعلق لکھنو کے ایک ممتاظ علمی و ادبی خانوادے ’’غفراںمآب‘‘ سے تھا۔ مولانا اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے لکھنو سے نجف اشرف، عراق تشریف لے گئے تھے۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے چند سال بعد فاطمہ بیگم اپنے شوہر کے ساتھ مستقلاً پاکستان آگئیں۔ ایک طویل عرصے تک وہ مارٹن روڈ کراچی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہیں بعد ازاں مولانا فیڈرل بی ایریا، بلاک 17 میں واقع اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے۔
فاطمہ بیگم جنہیں ہم سب امی جان کہتے تھے کو خداوند تعالیٰ نے پانچ بیٹوںکی نعمت اور دو بیٹیوں کی رحمت سے نوازا تھا۔ اْن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی عرصہ دراز سے امریکا میں رہائش پزیر ہیں اور ایک بیٹا اور بیٹی کراچی میں مقیم ہیں، جبکہ اْن کے دوسرے بیٹے مولانا محمد حسین نقوی جنہوں نے اپنے نانا کی زیرنگرانی تعلیم کا آخری مرحلہ مکمل کیا، تقریباً دس برس قبل مختصر علالت کے بعد اس دار فانی سے رْخصت ہو گئے۔ اس صدمہ جانکاہ کو مرضی معبود حقیقی سمجھتے ہوئے اْن کی والدہ نے جس صبر تحمل سے برداشت کیا وہ اْنہی کا خاصّہ تھا۔ امی جان کی پوری زندگی سادگی، دینداری اور عبادت گزاری کا مرقع تھی، وہ ہمیشہ شرعی پردے پر سختی سے کار بند رہیں اسی وجہ سے اْن کے پردے کی مثالیں دی جاتی تھیں، آخری عمر تک اپنے ذاتی اْمور اور گھریلو کام کاج خود کرتی رہیں۔ بیٹوں نے بار ہا چاہا کہ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی کل وقتی یا کم از کم جز وقتی ملازمہ رکھ لی جائے لیکن اْنہیں یہ کبھی گوارا نہ ہوا، اور کبیرسنی میں بھی ان کا یہ معمول جاری رہا۔ مہمانوں کی آمد پر اْن کی خاطر تواضع کا اہتمام بھی بغیر کسی اکرہ کے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتی تھیں، کوئی مہمان اُن کے گھر سے بغیر کچھ کھائے پیے نہیں جا سکتا تھا۔ امی جان کو لذیز کھانے پکانے میں ملکّہ حاصل تھا، اُن کے شوہر مولانا محسن نقوی چونکہ پاکستان کے نامی گرامی مجتہد تھے لہٰذا بڑے بڑے علما کا اُن کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا اور وہ بڑے شوق سے امی جان کے پکائے ہوئے لذیز کھانے تناول فرماتے تھے۔ علامہ طالب جوھری کو اُن کے پکائے ہوئے شامی کباب، پائے اور قورمہ بیحد مرغوب تھے اور وہ اکثران کھانوں کی فرمائش کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ قدرت نے اُن کے ہاتھ میں ذائقہ سمو دیا تھا، ہاتھ کے ساتھ ساتھ اللہ نے اْن کی زبان میں بھی حیرت انگیز تاثیر دی تھی اور وہ تاثیر یہ تھی کہ وہ جس کو بھی دْعا دیتیں وہ بارگاہ ایزدی میں جلد یا بدیر شرف قبولیت پاتی، اکثر اعزاء و احباب اْن کے بیٹوں سے کہتے کہ امی جان سے گزارش کریں کہ ہمارے لیے خاص طور پر دْعا کریں۔
مرحومہ ایک نہایت سادہ، گھریلو اور ٹھیٹھ مشرقی روایات پر کاربند رہنے والی خاتون تھیں، کبھی شوہر یا اپنی اولاد سے اُنہوں نے کوئی فرمائش نہیں کی، ان کی طبیعت بلکہ فطرت میں صبر، قناعت اور شکر گزاری کی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، انہوں نے عمرکے آخری لمحے تک کسی سے کوئی خدمت نہیں لی۔ زندگی کے آخری دن بھی انہوں نے اپنے اور اپنے بیٹے احسن نقوی، ایڈووکیٹ کے لیے خود ناشتہ تیار کیا، ناشتے سے فراغت کے کچھ دیر بعد کسی کام کے لیے اْٹھیں اور کام کے دوران ہی اچانک صحن میں گر گئیں، بیٹے نے انہیں جلدی سے اٹھایا، ان کا سر اپنے زانو پر رکھا، انہیں آوازیں دیں لیکن تب تک وہ داعی اجل کو لبیک کہ چکی تھیں، یقینا ایسی آسان اور پرْسکون موت اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت اْنہیں جوار رحمت اور اْن کی اولاد کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)