لاہور ہائیکورٹ نے پورا انتخابی عمل روک دیا تھا ،کیا الیکشن کمیشن ختم کردیں ؟ چیف جسٹس

253

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرننگ افسر کے معاملے پر پورا انتخابی عمل ہی روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ہی ختم کردیں؟۔عدالت عظمیٰ میں پنجاب میں 8 الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا کام کریں دوسرے کو اپنا کام کر دیں، جس کا کام ہے، اسے کرنے دیاجائے، فرض کر لیں دو آئینی اداروں کی بظاہر لڑائی ہے، تو اس معاملے میں آپ کا کیا لینا دینا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے، کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے ؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازع تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں، چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازع کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے ؟ کیا کوئی انا کا مسئلہ ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے ، مگر لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازع نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے، میں جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھا ہم نے واضح کہہ دیا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے،عدالت عظمیٰ نے جب جب آئینی تشریح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین آرڈیننس کے اجراء کی اجازت دیتا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے اجراء پرریمارکس دیے کہ صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اگر آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان بند کر دیں، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جا سکتا ہے، آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی کیا؟ کوئی ایمرجنسی تھی، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا، کوئی ایمرجنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے، الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی، پارلیمان کی وقت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائیکورٹ فیصلے کی نفی کی گئی۔ بعد ازں عدالت عظمیٰ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کر دی۔عدالت نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ 3رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا، اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا۔عدالت نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو فریق بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا اور سندھ و بلوچستان ہائیکورٹ میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کی تفصیلات طلب کرلیں۔