وفاقی پاکستان کے دونوں ایوانوں میں موجود ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ پر دونوں ایوانوں میں بحث جاری ہے جس کے بارے میں خیال یہ کیا جارہا ہے کہ آئندہ ہفتے بجٹ منظور کرلیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اگر حکومت پارلیمان سے بجٹ منظور نہیں کراسکے تو اسے عدم اعتماد قرار دیا جاتا ہے، اس لیے آج تک پاکستان میں کسی بھی ایوان نے بجٹ کو نامنظور نہیں کیا، یہاں تک کہ کسی حکومت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو، درآمد شدہ ٹیکنوکریٹ وزیر خزانہ کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا جارہا ہے لیکن عوام کے نمائندوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بناکر منظور کریں گے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے وزارت خزانہ کی سربراہی کے لیے درآمد کیے جانے والے اکثر وزرائے خزانہ کا تعلق بینکاری کے شعبے سے رہا ہے، معیشت کے ایک بڑے اور مرکزی شعبے سے تعلق رکھنے کے باوجود بینکار کو ہم کسی بھی حیثیت سے ماہر معیشت نہیں کہہ سکتے، بینکار کی بنیادی تربیت اس بات میں ہوتی ہے کہ قرض دے کر سود کے ساتھ کیسے وصول کیا جائے، اس لیے اپنی فطرت کے اعتبار سے بینکار سنگدل اور سفاک ہوتا ہے۔ انسانی ہمدردی کے جذبات کے ساتھ وہ اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ نئے وزیر خزانہ بھی بینکاری کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، بجٹ کی تفصیلات اور ان کی گفتگو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے بارے میں ان کی نظر کتنی سطحی ہے، ان کے لیے شاید کسی نظر، مہارت اور قواعد فکر کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ انہیں تو صرف آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کرنا ہے، وہ تو یہ بھی بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ پاکستان کی معاشی تباہی کے ذمے دار کون ہیں، 70، 75 سال میں جو اربوں ڈالر کے قرض لیے گئے اسے کس نے قوم پر بوجھ بنادیا ہے۔ اس لیے وہ باتیں کررہے ہیں جس کا حکم آئی ایم ایف نے دیا ہے اور پاکستانی قوم پر ’’فرد جرم‘‘ عابد کرکے اسے معاشی تباہی کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے، سب سے بڑا نکتہ یہ بیان کیا جارہا ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی، یہی بات وزیر خزانہ نے عید کی چھٹیوں میں اپنے آبائی علاقے میں جاکر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک صرف ٹیکس سے چل سکتے ہیں، ٹیکس کو مجموعی قومی پیداوار کا 13 فی صد ہونا چاہیے، جو صرف 9.5 فی صد ہے، دوسری بات جو انہوں نے دہرائی ہے وہ نجکاری ہے۔ نجکاری کی بات مسلسل کی جارہی ہے لیکن اس سلسلے میں بھی کوئی اجتماعی دانش موجود نہیں ہے، ایک طرف نجی شعبے میں تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے سازگار حالت پیدا کرنے کے لیے کوئی بصیرت موجود نہیں ہے، دوسری طرف بنیادی ڈھانچے کو قائم اور مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو جو فرائض ادا کرنے ہیں اسے ختم کیا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے ائر پورٹوں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے گا۔ ائر پورٹ کے انتظام کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اور مواصلاتی بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ ہے، سب سے زیادہ اضطراب اور بے چینی اس بات پر ہے کہ جلداز جلد پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کو بیچ دیا جائے۔ یہ دونوں ادارے پاکستان کے خزانے پر بوجھ نہیں تھے، شواہد یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں اداروں کو ایک خفیہ منصوبے کے تحت برباد کیا گیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک تحقیقی کمیشن بنایا جائے جو ان اداروں کی تباہی کے اسباب اور ذمے داروں کا تعین کرے لیکن جو حکمراں سقوط مشرقی پاکستان جیسے سانحے پر پردہ ڈال دیتے ہوں وہ کیسے اداروں کی تباہی کے اسباب اور ذمے داروں کا تعین کریں۔ پاکستان اسٹیل کو وزیر خزانہ نے اسکریپ قرار دے دیا ہے، اس بیان کے بعد پاکستان اسٹیل کے سابق سربراہ جنرل (ر) عبدالقیوم کا تشویش ناک بیان آیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اسٹیل کے سابق سربراہ سابق فوجی جنرل بھی رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایوان بالا سینیٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اسٹیل کو اسکریپ قرار دینے کے حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے وہ غور طلب ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگ زیب کی اقتصادی سروے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران کہی گئی یہ بات درحقیقت تکلیف دہ ہے کہ پاکستان اسٹیل کی اب نجکاری نہیں ہوسکتی، اب اسے اسکریپ کے طور پر فروخت کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان اسٹیل کو انہوں نے مشرف دور میں چھوڑا تو اس وقت پاکستان اسٹیل مل اپنی 90 فی صد پیداواری استعداد کے مطابق چل رہی تھی۔ اس کے ذمے کوئی قرضہ نہ تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ کے ریمارکس پر پاکستان اسٹیل کے سابق سربراہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان اسٹیل کو اسکریپ کے بھائو فروخت کرنے سے پہلے سول، مکینیکل، کیمیکل، میٹالوجیکل، الیکٹرانکس اور الیکٹریکل انجینئرز کی مشترکہ ٹیم کو موقع پر بھیج کر اس کا معائنہ کرانا انتہائی ضروری ہے۔ قومی اثاثہ ہے، اسے کوڑیوں کے مول فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیل مل کا اسکریپ بھی کسی کار، بس، موٹر گاڑی، ریل گاڑی کا نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے فولاد سازی کے کارخانے کا اسکریپ ہے، مشترکہ ٹیم کو ساحل سمندر پر نیشنل اور سپر ہائی ویز اور مین ریلوے لائن، ایم ایل ون کے ساتھ واقع صرف اس پلانٹ کی 90 ہزار ایکڑ زمین کو ہی نہیں دیکھنا ہوگا، بلکہ پاکستان اسٹیل کی اپنی جیٹی ہے، اپنا سمندری چینل ہے سمندر سے بھٹیوں تک کئی کلومیٹر کنویئر بیلٹ ہے، 165 میگاواٹ کا پاور ہائوس ہے، 165 بستروں کا اسپتال، 110 کلو میٹر کی سڑکیں، 72 کلو میٹر کی ریلوے لائن، سمندری چینل، پی سی ہوٹل کے مقابلے کے 50 گیسٹ ہائوسز، اسکول، کالج بشمول ایک کیڈٹ کالج، اسٹیڈیم، باغات اور تقریباً 10 کلو میٹر فائبر آپٹکس بچھی ہوئی سرنگوں پر بھی نظر دوڑانا ہوگی۔ پلانٹ کا اربوں ٹن کا لوہا اس کے علاوہ ہے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ 19 ہزار ایکڑ زمین جس کی 90 فی صد زمین کا انتقال مرکزی حکومت کو کردیا گیا تھا، صرف ساڑھے چار ہزار ایکڑ زمین کی نجکاری ہوگی جس پر پلانٹ اور خام مال رکھا جاتا ہے، لیکن یہ خدشہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ باقی سارے اثاثے جن کو سندھ حکومت دوسرے اداروں کو تقسیم کرے گی وہ بھی تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان اسٹیل کے سابق سربراہ کا بیان چشم کشا ہے کہ دونوں شخصیات مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ہیں، یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ پاکستان اسٹیل کی مکمل بندش کا عمل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور وزارت عظمیٰ میں مکمل ہوا، جبکہ شریف خاندان کی کاروباری امپائر کی بنیاد فولاد سازی کی صنعت ہے۔ آخر مسلم لیگ (ن) اپنی اہلیت و مہارت کو پاکستان اسٹیل کو بچانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکی۔ نجاری کے نام پر پاکستان کے قومی اثاثوں پر کن کن گدھوں کی نظر ہوس لگی ہوتی ہے۔