بجٹ بلائے جان!!

262

ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ کی رسّی کو مضبوط سے تھامے رکھو اور فرقہ فرقہ مت ہوجائو، اس ایک ہی فرمان میں امت مسلمہ کا راز پوشیدہ ہے کہ جب تک امت مسلمہ متحد رہی اور تفریق کا شکار نہ ہوئی۔ پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی تھے مگر جب امت مسلمہ میں بٹوارہ ہوا، عقیدت نے حقیقت پر غلبہ پایا اور یوں پھر ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوا، منبع رُشد و ہدایت جو اللہ کی رسّی ہے ہاتھ سے چھوٹی تو مسلک نے جنم لے کر مسلم وحدت، ہر ضرب کاری لگائی راستے منزل قرار پائے اور امت کے گروہ منزل گم کردہ ہوگئے اور یوں اُن کی ہوا اُکھڑ گئی۔ اور کفر و اغیار نے اس فرقہ پرستی کو ہوا دی اور فرقوں نے وہ کام کر دکھایا کہ جو کفر کی قوتیں بھی نہ کرسکیں اور ایک ہی کلمہ پڑھنے والی امت آپس میں سر پھٹول میں مصروف ہو کر رہ گئی۔ انہوں نے مسلمان کم بنائے اور کافر کہیں بڑھ کر قرار دیے۔ مساجد کا بٹوارہ کردیا، دینی بٹوارے سے جو سلسلہ شروع ہوا تو عجیب رنگ و ڈھنگ دیکھنے کو ملے، اصل تعلیمات ہاتھ سے گئیں تو لباس اور رنگ و روپ لبادے علامات حق بنالیے گئے، قصہ کہانیاں، من گھڑت واقعات کی لوریاں سنا کر رجھانے اور مال کمانے کو سب کچھ شریعت کا حصہ بنادیا۔ یوں پھر امت مسلمہ کی حالت خوان کی طرح ہو کر رہ گئی کہ کفر کی قوت دعوت شیراز دے رہی ہیں امت مسلمہ کے حکمرانوں میں وہن کی بیماری نے جڑ پکڑ لی کہ وہ موت سے خوف اور مال سے محبت میں جکڑی پڑی ہے اب رنگ و روپ ہی کو سب کچھ بنا کر نشانی شریعت بنایا جانے لگا ہے۔ اس تفرقہ بازی نے کئی لبادے اوڑھ رکھے ہیں۔ لسانیت شناخت ہوگئی ہے، ذات برادری میرٹ بن گئی ہے، علاقائی نسبت ہی اوّلیت قرار پائی اور تو اور قرآن کی تعلیمات کے برعکس ایوانوں کو بھی حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں آئینی طور پر تقسیم کردیا ہے اور یہ تفرقہ کیا تماشا دکھا رہا ہے، آنے والے جانے والے حکمرانوں کے متعلق کہہ رہے ہیں تماشا دکھا کر مداری گیا۔ یوں اب امت مسلمہ جو جسد واحد شریعت نے بتائی کہ کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہو خواب و خیال ہوگئی ہے۔ اب تو کہا جارہا ہے کہ تجھ کو کیا پرائی پڑی اپنی نبیڑ تو کی کہانی ہے۔

غزہ میں 40 ہزار کے لگ بھگ مرد و زن، بچے، بوڑھے اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں مگر مسلم حکمرانوں کی پیشانی پر بل تک نہیں آیا۔ اور حالت یہ ہوچلی ہے کہ مساجد کے علما جو جہاد کا خطبہ گھن گرج کے ساتھ دیا کرتے ہیں۔ انہوں نے مجاہدین اسلام کے حق میں خطبہ جمعہ دینا تو درکنار نمازیوں کو اُن کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی التماس بھی شاذ و نادر کی، تفرقہ بازی نے بھی مسلم کے ہاتھ مسلم کے خون کی ارزانی کا سامان کیا۔ افسوس ہے کہ مسلک کی بالادستی نے جہاد کا روپ دھار لیا۔ واعظین نے کلمے کے نام پر کلمہ گو کے قتل کو جائز قرار دیا اور اب نہ قتل کرنے والے کو علم ہے کہ وہ کیوں جان لے رہا ہے اور نہ ہی مقتول جانتا ہے کہ وہ کیوں مارا جارہا ہے۔ فرقہ پرستی نے مسلمانوں کو تارعنکبوت (مکڑی کے جالے) کی طرح کمزور کردیا ہے اور یوں حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔ موجودہ عالمی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کفر اسلام کی جنگ ہے جس کا اشارہ امریکا کے سابق وزیر خزانہ کسنجر نے کیا تھا اس میں کفر جسد واحد ہے اور امت مسلمہ اور ان کے حکمران تفرقہ کا شکار ہیں اور اس وجہ سے خراب وخوار ہیں۔ متحد نہ ہوئے تو مٹ جائو گے۔

قوم سے بجٹ کی آندھی پوچھ رہی ہے کیا اب بھی ہمت باقی ہے، آئی ایم ایف تو ہم سے راضی ہے۔ میزانیہ 2024-25 نے قوم کے ہوش اڑا دیے ہیں، امیر اور غریب کی تفریق اب بجٹ میں فائلر اور نان فائلر کے ناموں سے کردی گئی ہے جو فائلر ہے یعنی اپنی فائل حکومت کے پاس آمدن کی جمع کراتا ہے وہ محبوب و منظور نظر ہے اور اس کو حیران کن ٹیکس کی مدات میں چھوٹ ہے یہ جھوٹی یا سچی اس سے غرض نہیں۔ حکومت کے پاس بقول وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب کہ ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، کون کتنا بل دیتا ہے، شہریوں کے لائف اسٹائل کا ڈیٹا ہمارے پاس ہے مگر یہ ڈیٹا کس کام کا ہے صرف ان کو ڈرانے کا ہے جو مکڑی کے جالے میں الجھ جاتے ہیں اور توڑ کر نکلنے کی قوت نہیں رکھتے، دبئی لیکس کے حالیہ انکشافات اور پاناما لیکس کے پرانے انکشافات پر وزارت خزانہ نے ماضی سے لے کر اب تک اس تریاق کا صرف اعلان ہی کیا اور ان کا بال بیکا بھی نہ کرسکی، اب قوم کا وہ طبقہ جو نان و نفقہ کے لیے پریشان ہے اور لگی بندھی تنخواہ لیتا ہے ان پر ٹیکس کی شرح جو ڈھائی فی صد تھی بڑھا کر 5 فی صد کردی کہ ہم نے تنخواہ بڑھائی ہے تو شرح ٹیکس بھی بڑھا دیا ہے کہ ڈھٹائی ہے مگر یہ کوئی پوچھے سرکار تنخواہ کی بڑھوتی کیا مہنگائی کی بڑھوتی کے برابر ہے ہر گز نہیں بلکہ آپ نے جتنی تنخواہ بڑھائی ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر بنیادی ضرورتوں کی اشیا پر ٹیکسوں میں اضافہ کردیا ہے، بچوں کے دودھ سے لے کر بوڑھوں کی ادویہ تک ناقابل خرید کردی ہے کچھ تو خدا کا خوف کرو اپنے اللے تللے کے خرچ جو اشرافیہ پر سالانہ 170 ارب ڈالرز مراعات کی صورت ہیں ان میں کیا کمی کی؟ بجٹ اس بارے میں خاموش ہے۔

بڑے بڑے زمینداروں کو جو ایک ہی فصل سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں ان کی آمدن پر انکم ٹیکس ہی لاگو نہیں کیونکہ یہ گھر کی بات ہے ہاں تنخواہ دار سالانہ 6 لاکھ روپے کماتا ہے اور ماہانہ 50 ہزار روپے سے ایک روپیہ بھی زیادہ کمائے گا تو انکم ٹیکس کی ضرب کھائے گا یہ شرح 6 لاکھ آمدن جو مہنگائی کے طوفان میں تنکے کے برابر ہے کو بڑھا کر 10 لاکھ روپے کردی جاتی تو کچھ بات تھی، اس آمدن کی حد کو برقرار رکھا ہے اور انکم ٹیکس کی شرح میں سو فی صد اضافہ کرنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ تنخواہ دار جو مجبور کٹوتی ہیں ان کے پاس کوئی راہ فرار نہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مجبور دیکھ کر کھال کھینچ لی جائے۔ تم بھی پیٹ پر بھوک سے پتھر دکھائو ہمارے محترم نبی کا طریق زندگی تو یہ ہے تو قوم بھی پیٹ پر پتھر باندھ لے گی تمہارے پیٹ پر تو تندور بندھے ہوئے ہیں تم جوع البقر اور ہوس زر کا شاہکار بنے ہوئے ہو تمہارے گھوڑے مربہ کھائے اور تم معمولی مرض کا علاج بیرون ملک کراتے ہو، لٹیرے ہو، لوٹ کے مال کا انبار تمہارے پاس اور تم چھری تیز کرکے قوم کو قربانی کی دعوت دیتے ہو، ہاں آئی ایم ایف نے عالمی معیار کے ٹیکس لگانے پر اظہار اطمینان کی تھپکی دے دی ہے کہ خوش ہوجائو، مگر یہ خوشی ربّ کی ناراضی کا سامان کررہی ہے۔ ذرا سوچ لو، تم کیا کررہے ہو روز محشر جواب دینا ہوگا! حکمران؟ ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک؟