عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ موقف )حصہ اول(

483

تمہیدی نوٹ: عدالت عظمیٰ میں ایک فوجداری اپیل: 1054-L02023 دائر ہوئی، عدالت عظمیٰ کے اُس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے، عدالت عظمیٰ نے 6فروری 2024 کو جو فیصلہ صادر کیا، اُس سے پاکستان کے دینی طبقات میں اضطراب پیدا ہوا اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، کیونکہ اس فیصلے کے مابعد اثرات ممکنہ طور پر پورے ملک میں مذہبی اشتعال کا باعث بن سکتے تھے۔ آخر کار عدالت عظمیٰ نے اس پر نظر ِ ثانی پٹیشن کی سماعت کی اور چند اداروں سے اس کی بابت رائے طلب کی۔ راقم الحروف (مفتی منیب الرحمن) اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عدالتی حکمنامے پر تحریری شکل میں اپنا موقف پیش کیا، اس پر دونوں کے دستخط ثبت ہیں اور بعد میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور قرآن اکیڈمی کے دارالافتاء نے اسی موقف کی تائید کی۔

29مئی 2024 کو عدالت عظمیٰ میں نظر ِ ثانی پٹیشن پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا: مفتی منیب الرحمن (دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی) کا کوئی نمائندہ ہے، علامہ صاحبزادہ سید حبیب الحق شاہ نے کہا: ’’میں اُن کا نمائندہ ہوں‘‘، چنانچہ چیف جسٹس کے حکم پرعلامہ صاحبزادہ سید حبیب الحق شاہ صاحب نے یہ موقف عدالت عظمیٰ میں لفظ بہ لفظ سنایا اور تمام مکاتب ِ فکر نے اس کی تائید کی، نیز انہوں نے چیف جسٹس صاحب کے ایک دو مزید استفسارات کے بھی جوابات دیے، ہم عوام اور اہل ِ علم کی آگہی کے لیے یہ موقف سطورِ ذیل میں درج کر رہے ہیں:

عدالت عظمیٰ آف پاکستان نے فوجداری پٹیشن نمبر 1054-L02023 کے 6فروری 2024 کے عدالتی حکم نامے پر نظرثانی کی استدعا نمبر 2024/2 کے بارے میں اسلامی احکام اور آئین کی روشنی میں عدالت کی معاونت کی غرض سے ہم سے اپنی تحریری رائے طلب کی ہے، اس سلسلے میں ہم عدالت کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مقدمات دائر کرنے اور ان کا فیصلہ کرنے میں جذباتیت کے بجائے حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے، اس معاملے میں قرآن کریم کی واضح ہدایت یہ ہے:

’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے ہوجائو، اس حال میں کہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو، کسی قوم کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو، یہی شعار تقوے کے زیادہ قریب ہے، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (المائدہ:8) لیکن جو آیات کریمہ زیر ِ نظرثانی فیصلے میں پیراگراف نمبر 6 سے 10تک ذکر کی گئی ہیں، ہماری رائے میں ان میں سے کسی بھی آیت کا اس مقدمے کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے، ان آیاتِ مبارکہ کی مختصر تشریح سے ان کا اس مقدمے سے غیرمتعلق ہونا بخوبی واضح ہوجائے گا:

پہلی آیت البقرہ: 256 کے کلماتِ مبارکہ یہ ہیں: ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہوچکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا، جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اللہ خوب سُننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) اس آیت کریمہ میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، نیز جبراً اسلام قبول کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے۔ زبردستی کے اس مفہوم کو یونس 99: میں مزید واضح فرمادیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کروگے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں‘‘۔

اس آیت نے واضح فرما دیا کہ سورۂ بقرہ میں جس زبردستی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ نیز سورۂ بقرہ کی اس آیۂ مبارکہ کے شان نزول میں مفسرین نے جو واقعات بیان کیے ہیں، ان سب میں یہی صورت مشترک ہے کہ کسی شخص پر زبر دستی کرکے اسے مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کی تردید کے لیے یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن کثیر)

اب سوال یہ ہے: زیر نظر مقدمے کا ان آیتوں سے کوئی تعلق بنتا ہے، کیا یہاں کسی قادیانی کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی کوشش ہوئی تھی، ظاہر ہے: ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ایک ملزَم جو شریعت، آئین اور قانون کی رُو سے مسلَّمہ طور پر غیر مسلم اور قادیانی ہے، اس پر الزام یہ تھا کہ وہ قرآن کی ایک تفسیر، جو مسلمانوں کے مسلَّمہ مفہوم اور قانون کے خلاف ہے، پڑھا رہا تھا، پس یہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس پر اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی زبردستی کی جارہی تھی۔ لہٰذا اس مقدمے کے فیصلے میں اس آیہ مبارکہ کا حوالہ دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا، سوائے اس کے کہ جناب چیف جسٹس کی رائے یہ ہو: قادیانیوں کو آئین میں جو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے یا تعزیرات پاکستان میں قادیانیوں کے اپنے مذہب کو اسلام کا نام دینے یا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ اس آیۂ مبارکہ کے خلاف ہیں، پس عام لوگوں نے اس کا یہی تاثر لیا جو بڑے پیمانے پر اہل ِ علم اور دین دار عوام کے ذہنوں میں اضطراب اور خلفشار کا باعث بنا۔

اس شبہے کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملی کہ زیر نظر ریویو پٹیشن میں جن اداروں کو عدالت کی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں، ان میں ایک ادارہ وہ بھی ہے جس کے بانی کا ایک طے شدہ موقف ہے اور اس کی بابت ان کے آرٹیکل قومی اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں: (الف)وہ آئین کے پیش لفظ (Preamble)، آرٹیکل 2و 2A کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں، ان میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب اور قراردادِ مقاصد کو آئین کا موثر بہ عمل حصہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ موصوف کے نزدیک ریاست سیکولر ہوتی ہے، (ب): دستور کے آرٹیکل 260 کی ذیلی دفعات 3Aاور 3B کو بھی وہ غیر ضروری قرار دیتے ہیں، ان میں مسلم اور غیرمسلم کی تعریفات مذکور ہیں، (ج): وہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295 اور 298 کو بھی قطعاً درست نہیں سمجھتے، کیونکہ ان میں توہین ِ مذہب کو جرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ اُن کے نزدیک یہ جرم نہیں ہے۔

پس اگر یہ شبہہ صحیح ہے تو یہ بات انتہائی قابل ِ اعتراض ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتوں کے قابل ِ احترام جج صاحبان نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور وہ اسے نظامِ آئین وقانون اور نظامِ عدل میں نافذ کرنے کے پابند ہیں، یہ مسئلہ اُن کے لیے اختیاری نہیں ہے، نیز وہ اپنی صوابدید پر آئین وقانون کی رُو سے ان دستوری وقانونی دفعات کے خلاف فیصلہ دینے کے مُجاز ہی نہیں ہیں، نہ وہ فوجداری اختیارِ سَماعت ( Criminal jurisdiction) میں کسی قانون کو تبدیل کرنے کے مُجاز ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ اس آیت کا نہ تو زیر ِ نظر مقدمے سے کوئی تعلق ہے اور نہ اس کی آڑ میں ایسی باتوں کو چھیڑنے کا کوئی جواز ہے، جو آئین و قانون اور عدالت عظمیٰ نے پہلے سے طے کی ہوئی ہیں۔ دوسری آیۂ مبارکہ جس کا فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے، وہ الرعد: 40 ہے، اس میں ارشاد ہوا: ’’(اے نبی!) آپ کے ذمے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینے کی ذمے داری ہماری ہے‘‘۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو یہ تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے باوجود اگر بدقسمتی سے کفار کُفر پر برقرار رہتے ہیں اور ایمان قبول نہیں کرتے، تو اے رسولِ مکرم! آپ اس کی ذمے داری سے بری الذمہ ہیں، اُن کے کفر پر برقرار رہنے کے سبب آپ سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوگی۔ الغرض کافروں کے کفر پر برقرار رہنے کے سبب آپ سے آخرت میں کوئی حساب نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ اپنے قانونِ عدل کے تحت ان سے خود نمٹے گا۔ پس یہ آیت اس معنی پر صریح ہے اور اس کی کوئی اور قابل ِ قبول تاویل وتوجیہ نہیں کی جاسکتی، اسی سبب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(ان کافروں سے) حساب لینے کی ذمے داری ہماری ہے‘‘، اس تشریح سے واضح ہوا کہ اس آیۂ مبارکہ کا بھی اس مقدمے سے دورکا کوئی تعلق نہیں بنتا، ورنہ تعزیراتِ پاکستان میں جتنے جرائم اور ان کی سزائیں درج ہیں، اس اصول کے تحت کوئی کہہ سکتا ہے: حکومت کا کام صرف یہ تبلیغ کرنا ہے کہ چوری ڈاکہ وغیرہ گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ خود اُن سے حساب لے لے گا، بندے کے کسی جرم پر سزا دینا حکومت یا عدالت کا کام نہیں ہے، کیا یہ استدلال کسی بھی درجے میں قابل قبول ہوسکتا ہے۔ (جاری ہے)